یوکرین جنگ میں پولینڈ نے روسی ڈرون مار گرائے، نیٹو کی تاریخ ساز کارروائی
یوکرین جنگ اور یورپ کی بدلتی صورتحال
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ اب اپنے تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے۔ اس جنگ نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کی معیشت اور سیاست پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اس دوران کئی بار روسی میزائل اور ڈرون سرحدی ممالک کی حدود میں داخل ہوئے لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی نیٹو ملک نے براہِ راست جوابی کارروائی کی۔ اس بار معاملہ صرف یوکرین تک محدود نہیں رہا بلکہ پولینڈ نے روسی ڈرون مار گرائے اور پولینڈ بھی براہِ راست اس کشیدگی کا حصہ بن گیا۔
پولینڈ نے روسی ڈرون مار گرائے: پہلا بڑا واقعہ
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یوکرین پر روس کے بڑے فضائی حملے کے دوران 19 ڈرون پولش حدود میں داخل ہوئے۔ یہ صورتحال غیر معمولی تھی کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب نیٹو کا کوئی رکن ملک براہِ راست روسی ہتھیاروں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
پولینڈ نے روسی ڈرون مار گرائے (Poland shoots down Russian drones) تو اس کارروائی میں اس کے ایف-16 طیاروں کے ساتھ ساتھ اتحادی نیٹو ممالک بھی شامل تھے۔ ڈچ ایف-35 اور اطالوی نگرانی طیاروں نے اس کارروائی میں کردار ادا کیا، جو کہ ایک بڑے عسکری تعاون کی علامت ہے۔
وزیراعظم ڈونلڈ ٹسک کا سخت موقف
پولینڈ کے وزیراعظم ڈونلڈ ٹسک نے پارلیمان میں اس واقعے کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے خطرناک لمحہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس وقت یورپ بھر میں براہِ راست جنگ کا اندیشہ نہیں ہے لیکن یہ صورتحال بلاشبہ کھلے تصادم کے قریب ترین ہے۔
وزیراعظم نے اس کارروائی کو روس کی بڑی اشتعال انگیزی قرار دیا اور فوری طور پر نیٹو معاہدے کے آرٹیکل 4 کو فعال کیا۔ اس آرٹیکل کے تحت اتحادی ممالک سے مشاورت اور مشترکہ دفاعی حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔
پولینڈ میں ہائی الرٹ اور شہریوں کے خدشات
پولینڈ کی مسلح افواج نے اس کارروائی کے فوراً بعد مشرقی علاقوں میں ہائی الرٹ جاری کر دیا۔ شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی جبکہ کئی گھنٹوں کے لیے بعض ہوائی اڈے بند رہے۔ ان اڈوں میں وہ اہم اڈہ بھی شامل تھا جہاں سے یوکرین کے لیے مغربی حکام اور فوجی سازوسامان روانہ ہوتا ہے۔
یہ صورتحال پولینڈ کے عوام کے لیے غیر معمولی تھی کیونکہ اس سے پہلے تک وہ خود کو جنگ سے محفوظ سمجھتے تھے۔ لیکن جب پولینڈ نے روسی ڈرون مار گرائے تو شہریوں کو اندازہ ہوا کہ یہ جنگ اب ان کے دروازے تک پہنچ چکی ہے۔
روس کا ردعمل اور انکار
روسی حکام نے ہمیشہ کی طرح اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا۔ ماسکو نے کہا کہ پولینڈ کے الزامات بے بنیاد ہیں اور روس نے دانستہ طور پر کوئی ڈرون پولش حدود میں نہیں بھیجا۔ تاہم یورپی یونین اور نیٹو حکام نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ دراندازی جان بوجھ کر کی گئی تھی۔
نیٹو اور یورپی یونین کا ردعمل
یورپی یونین کی اعلیٰ سفارتکار کایا کالاس نے کہا کہ روس کی جنگ کم نہیں ہو رہی بلکہ مزید پھیل رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر اب سخت قدم نہ اٹھایا گیا تو یورپ کا امن براہِ راست خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیر لیئن نے روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا جبکہ چیک وزیر خارجہ نے نیٹو سے مطالبہ کیا کہ سرحدی فضائی دفاع کو مزید مضبوط بنایا جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
یوکرین کی تشویش اور زیلنسکی کا پیغام
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روس نے ایک ہی رات میں 415 ڈرون اور 40 میزائل داغے۔ ان میں سے کم از کم 8 ایرانی ساختہ ’شاہد‘ ڈرون پولینڈ کی سمت بھیجے گئے۔
انہوں نے کہا کہ جب پولینڈ نے روسی ڈرون مار گرائے تو یہ صرف ایک ملک کا دفاع نہیں تھا بلکہ پورے یورپ کی حفاظت تھی۔ زیلنسکی نے اتحادی ممالک سے اپیل کی کہ وہ اس جنگ کو صرف یوکرین کا مسئلہ نہ سمجھیں بلکہ اجتماعی خطرے کے طور پر دیکھیں۔
نیٹو اتحاد کی اہمیت میں اضافہ
پولینڈ نے روسی ڈرون مار گرائے اس کارروائی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نیٹو اب محض ایک دفاعی معاہدہ نہیں رہا بلکہ عملی طور پر بھی اتحادی ممالک ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر مستقبل میں اس طرح کی کارروائیاں مزید ہوئیں تو نیٹو براہِ راست جنگی فریق بن سکتا ہے۔
تجزیہ: کیا جنگ یورپ میں پھیلنے والی ہے؟
سوال یہ ہے کہ جب پولینڈ نے روسی ڈرون مار گرائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ اب یورپ میں داخل ہو گئی ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت روس براہِ راست نیٹو ممالک سے جنگ کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ لیکن بار بار کی دراندازی اور اس طرح کی کارروائیاں کشیدگی کو ضرور بڑھا سکتی ہیں۔
یہ صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یوکرین کی جنگ اب محدود سرحدوں تک قید نہیں رہی بلکہ اس کے اثرات پورے براعظم یورپ پر پڑ سکتے ہیں۔
پولینڈ نے روسی ڈرون مار گرائے تو یہ واقعہ یوکرین جنگ کا ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ نیٹو کے کسی رکن ملک نے براہِ راست روسی ہتھیاروں کو نشانہ بنایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب یورپ بھی اس جنگ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔
اگرچہ روس اس واقعے کو رد کر رہا ہے لیکن یورپی یونین اور نیٹو ممالک اسے ایک خطرناک پیش رفت سمجھ رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ فیصلہ کن ہوگا کہ آیا یہ کشیدگی کسی بڑے تصادم میں بدلتی ہے یا سفارتکاری کے ذریعے قابو میں آتی ہے۔
یوکرین یا تائیوان پر حملہ کیا تو ماسکو اور بیجنگ پر شدید بمباری کروں گا
