لاہور: اپوزیشن لیڈرعمر ایوب کی ضمانتیں خارج ، حاضری معافی بھی مسترد — تین اہم مقدمات میں بڑی پیش رفت
لاہور: — انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) لاہور نے قومی اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما عمر ایوب خان کی عبوری ضمانتیں خارج کر دی ہیں۔ یہ فیصلہ جناح ہاؤس، عسکری ٹاور اور دیگر جلاؤ گھیراؤ کے تین سنگین مقدمات میں سنایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ملزم کی ایک روزہ حاضری سے معافی کی درخواست بھی مسترد کر دی، جس سے قانونی ماہرین اس کیس کو سیاسی و عدالتی منظرنامے میں ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
سماعت کی کارروائی
اے ٹی سی لاہور میں انسداد دہشت گردی کے جج منظر علی گل نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ کے مطابق عمر ایوب خان پر 9 مئی کے بعد پیش آنے والے پُرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں، جن کے تحت تھانہ شادمان سمیت دیگر تھانوں میں مقدمات درج کیے گئے تھے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران واضح کیا کہ ملزم کی جانب سے مقررہ تاریخ پر عدالت میں حاضری یقینی نہیں بنائی گئی اور وکلا کی جانب سے پیشی میں تاخیر یا عدم پیروی کا رویہ اختیار کیا گیا۔ اس بنیاد پر عدالت نے نہ صرف عبوری ضمانتیں خارج کیں بلکہ حاضری معافی کی درخواست کو بھی غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
مقدمات کی نوعیت اور الزامات
عمر ایوب خان پر درج مقدمات میں:
جناح ہاؤس پر حملہ کیس: جس میں سرکاری و فوجی املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام شامل ہے۔
عسکری ٹاور جلاؤ گھیراؤ کیس: لاہور کے مرکزی علاقے میں واقع ایک بلند و بالا کمرشل عمارت کو نقصان پہنچانے کا الزام۔
تھانہ شادمان جلاؤ گھیراؤ کیس: پولیس اسٹیشن اور وہاں موجود ریکارڈ و گاڑیوں کو نقصان پہنچانے کا الزام۔
ان تمام مقدمات میں دہشت گردی، عوامی املاک کو نقصان، پولیس مزاحمت اور ہنگامہ آرائی کی دفعات شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں اہم عہدوں سے محرومی کا سامنا
9 مئی واقعات کا پس منظر
یہ مقدمات پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک اہم اور متنازع دن — 9 مئی 2023 — سے جڑے ہیں، جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ ان واقعات میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا، فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے اور کئی مقامات پر آگ زنی کی گئی۔
لاہور میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والے واقعات میں کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) پر حملہ اور عسکری ٹاور کو نقصان شامل تھے۔ اس وقت کے ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں مظاہرین کو عمارتوں میں گھستے، سامان توڑتے اور آگ لگاتے دیکھا گیا۔
ان واقعات کے بعد پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا، جس میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سمیت ہزاروں کارکنان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
قانونی پیش رفت اور دفاعی موقف
عمر ایوب خان کی جانب سے ان مقدمات میں عبوری ضمانت حاصل کی گئی تھی تاکہ وہ گرفتاری سے بچ سکیں اور اپنے دفاع میں قانونی تیاری کر سکیں۔ تاہم عدالت نے آج عمر ایوب کی ضمانتیں خارج کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملزم عدالت کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہا۔
پی ٹی آئی کے قریبی ذرائع کے مطابق، پارٹی قیادت اس فیصلے کو "سیاسی انتقام” قرار دے رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مقدمات میں ثبوت ناکافی ہیں۔ پارٹی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں زیادہ تر کارکنان خودبخود مشتعل ہوئے اور قیادت کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔
قانونی ماہرین کی رائے
سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ عبوری ضمانت کے دوران عدالت میں باقاعدہ پیشی اور مقدمے کی پیروی لازمی ہوتی ہے۔ اگر ملزم یا اس کے وکیل اس میں ناکام رہیں تو عدالت کو اختیار ہے کہ وہ ضمانت منسوخ کر دے۔ اس کیس میں عدالت نے یہی مؤقف اپنایا۔
قانونی ماہرین مزید کہتے ہیں کہ عبوری ضمانت خارج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پولیس اب ملزم کو کسی بھی وقت گرفتار کر سکتی ہے، جب تک کہ وہ دوبارہ ضمانت حاصل نہ کرے یا اعلیٰ عدالت سے ریلیف نہ لے۔
آئندہ کا منظرنامہ
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمر ایوب کے وکلا اب اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم، قانونی پیچیدگیوں اور ماضی کی عدالتی مثالوں کو دیکھتے ہوئے فوری ریلیف حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔
عوامی ردعمل
اس فیصلے پر عوامی ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی اسے سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں، جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور اگر کسی نے ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا ہے تو اسے کڑی سزا ملنی چاہیے۔
انسداد دہشت گردی عدالت کا یہ فیصلہ نہ صرف عمر ایوب بلکہ پی ٹی آئی کی دیگر قیادت کے لیے بھی ایک اہم پیغام ہے کہ 9 مئی کے مقدمات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ یہ مقدمات آنے والے مہینوں میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔
