نامور قوال استاد رشید احمد خاں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے، فیصل آباد کی قوالی دنیا سوگوار، نصرت اور راحت فتح علی خاں کے قریبی ساتھی تھے۔
قوالی کی دنیا میں غم کی لہر
فیصل آباد کی روحانی اور ثقافتی فضاؤں میں آج ایک گہرا خلا محسوس کیا جا رہا ہے۔ استاد رشید احمد خاں کا انتقال قوالی کی دنیا کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ دل کا دورہ پڑنے کے باعث ان کا انتقال ہوا، جس نے ان کے چاہنے والوں کو غمزدہ کر دیا۔
مرحوم نہ صرف ایک مشہور قوال تھے بلکہ استاد نصرت فتح علی خاں کے شاگرد اور راحت فتح علی خاں کے قریبی ساتھی بھی تھے۔
استاد رشید احمد خاں کا فنّی سفر
استاد رشید احمد خاں کا انتقال ایک ایسے شخص کا انجام ہے جس نے اپنی پوری زندگی قوالی کے فروغ کے لیے وقف کر دی۔ فیصل آباد کے گلی کوچوں سے شروع ہونے والا یہ سفر عالمی اسٹیج تک جا پہنچا۔
انہوں نے اپنی قوالی میں کلاسیکی موسیقی کی روح اور صوفیانہ کلام کی گہرائی کو یکجا کیا۔
ان کے کلام میں عشقِ حقیقی، صبر، محبت اور روحانی وجد کا رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔
استاد نصرت فتح علی خاں کے شاگرد
استاد رشید احمد خاں نے اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت قوالی کے بادشاہ استاد نصرت فتح علی خاں سے حاصل کی۔
نصرت صاحب کے زیرِ سایہ انہوں نے نہ صرف قوالی کے فنی پہلوؤں میں مہارت حاصل کی بلکہ روحانیت اور صوفی فلسفے کو بھی اپنی آواز کا حصہ بنایا۔
استاد رشید احمد خاں کا انتقال نصرت فتح علی خاں کی شاگردی کی روایت کے ایک اہم باب کا اختتام ہے۔
راحت فتح علی خاں کے قریبی ساتھی
مرحوم قوال کا راحت فتح علی خاں کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ وہ اکثر راحت کے کنسرٹس میں بطور معاون قوال شریک ہوتے۔
راحت فتح علی خاں نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا:
"میں نے اپنے بھائی، اپنے استاد، اپنے رہنما کو کھو دیا ہے۔ استاد رشید احمد خاں کا انتقال قوالی کے ہر شائق کے لیے ایک ذاتی نقصان ہے۔”
نمازِ جنازہ اور تدفین کی تفصیلات
مرحوم کی نمازِ جنازہ آج دوپہر 2 بجے فیصل آباد کے علاقے 192 ر ب رسول نگر میں ادا کی جائے گی۔
ان کے شاگردوں، اہلِ خانہ، موسیقی کے شائقین، اور سماجی شخصیات کی بڑی تعداد شرکت کرے گی۔
فیصل آباد کی فضاؤں میں قوالی کے نغمے کچھ وقت کے لیے خاموش ہو گئے ہیں۔
مداحوں اور فنکاروں کا اظہارِ افسوس
استاد رشید احمد خاں کے انتقال پر نہ صرف قوالی سے وابستہ شخصیات نے بلکہ سیاسی و سماجی رہنماؤں نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ان کے مداحوں کا کہنا ہے کہ رشید احمد خاں کی آواز میں جو روحانیت تھی وہ سننے والوں کو وجد میں لے جاتی تھی۔
ان کے ایک پرانے مداح نے کہا:
"ان کی قوالی صرف موسیقی نہیں بلکہ عبادت تھی۔ آج ہم نے ایک درویش قوال کھو دیا۔”
قوالی کی روایت اور استاد رشید احمد خاں کا کردار
پاکستان میں قوالی صرف ایک صنفِ موسیقی نہیں بلکہ روحانی ورثہ ہے۔
استاد رشید احمد خاں نے اس روایت کو جدید دور میں بھی زندہ رکھا۔
انہوں نے نوجوان نسل کو قوالی سے روشناس کرانے کے لیے متعدد تربیتی پروگرامز اور ورکشاپس بھی منعقد کیں۔
استاد رشید احمد خاں کا انتقال نئی نسل کے لیے ایک سبق ہے کہ فن کے ساتھ خلوص اور لگن کتنی اہم ہے۔
استاد رشید احمد خاں کے نمایاں کلام
ان کی قوالیوں میں "تیرے عشق نچایا”، "میں تو پیا سے نین ملا کے آئی رے” اور "دمادم مست قلندر” خاص طور پر مقبول ہوئیں۔
ان کی آواز میں صوفیانہ وجد اور محبت کا رنگ آج بھی سامعین کے دلوں میں تازہ ہے۔
بھائی استاد رشید رفیق کا بیان
مرحوم کے بھائی، قوال استاد رشید رفیق نے کہا:
"رشید بھائی نے ہمیشہ اپنے فن سے عشق کیا۔ وہ کہتے تھے قوالی عبادت ہے، شہرت نہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ استاد رشید احمد خاں کا انتقال ہمارے خاندان کے لیے روحانی اور فنّی دونوں سطحوں پر نقصان ہے۔
قوالی کی دنیا میں خلا
رشید احمد خاں کے انتقال کے بعد قوالی کے مداحوں میں یہ احساس عام ہے کہ نصرت کے بعد جو چند چمکتے ستارے باقی تھے، ان میں سے ایک بجھ گیا ہے۔
ان کا فن اور ان کی تربیت آج بھی درجنوں شاگردوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
ورثہ اور یادگار خدمات
انہوں نے اپنے کیریئر میں سینکڑوں قوالیاں ریکارڈ کیں، کئی ٹی وی شوز اور محفلوں میں شرکت کی، اور پاکستان کی موسیقی کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں کردار ادا کیا۔
ان کے کئی شاگرد آج بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں، جو ان کے فن کی میراث ہے۔
زوبین گارگ کی موت کیس، پولیس نے ساتھی گلوکارہ اور بینڈ میٹ کو گرفتار کرلیا
استاد رشید احمد خاں کا انتقال قوالی کے ایک روشن عہد کا اختتام ہے۔ ان کی آواز، ان کا فن اور ان کی لگن ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
وہ صرف قوال نہیں بلکہ ایک روحانی شخصیت تھے جنہوں نے موسیقی کے ذریعے دلوں کو جوڑا۔
پاکستانی موسیقی ان کے نام کو ہمیشہ عزت اور عقیدت سے یاد رکھے گی۔