وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک کا نوٹس، 14 رکنی کمیٹی قائم
پاکستان میں حالیہ دنوں میں ڈیجیٹل سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین خدشات جنم لے چکے ہیں۔ رپورٹ نے ہلچل مچا دی جب انکشاف ہوا کہ اعلیٰ حکومتی شخصیات، وزراء اور بیوروکریسی کا موبائل ڈیٹا انٹرنیٹ پر فروخت ہو رہا ہے۔ اس معاملے پر وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک خبر کا فوری نوٹس لیتے ہوئے حرکت میں آگئے ہیں اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
معاملے کی سنگینی
رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر حکومتی شخصیات، چیئرمین پی ٹی اے، اعلیٰ افسران اور وزراء کی موبائل سمز کے ریکارڈ، شناختی کارڈ کی تصاویر، کال ڈیٹا اور لوکیشن کی تفصیلات کم قیمت میں فروخت کی جارہی ہیں۔ یہ انکشاف ملک کی ڈیجیٹل سیکیورٹی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسی لیے وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک (Home Minister mobile data leak) اسکینڈل کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔
ایک سال پرانی نشاندہی اور موجودہ صورتحال
ایک سال قبل بھی اس معاملے پر رپورٹ دی تھی، تاہم اس وقت پی ٹی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ ایسی تمام ویب سائٹس کو پاکستان میں بلاک کردیا گیا ہے۔ لیکن تازہ شواہد نے ثابت کیا کہ ڈیٹا ایک بار پھر باآسانی مختلف پلیٹ فارمز پر دستیاب ہے، جس پر وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک پر ہنگامی بنیادوں پر حرکت میں آئے۔
وزیر داخلہ کا فوری ایکشن
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے خبر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے این سی سی آئی اے کو احکامات جاری کیے۔ انہوں نے فوری طور پر 14 رکنی کمیٹی تشکیل دی جو اس معاملے کی ہر پہلو سے تحقیقات کرے گی۔ وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک پر بنائی گئی کمیٹی 14 روز کے اندر رپورٹ جمع کرائے گی۔
کمیٹی کی تشکیل اور ذمہ داریاں
وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کی یہ کمیٹی ڈیٹا لیک کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ اس ٹیم کو یہ بھی ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ یہ تعین کرے کہ آخر اس لیک میں کون سے عناصر ملوث ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کیسے کی جا سکتی ہے۔ وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک کے تناظر میں یہ اقدام ڈیجیٹل سیکیورٹی کو بہتر بنانے کی ایک بڑی کوشش ہے۔
ڈیجیٹل سیکیورٹی کے خطرات
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی کمزوری ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ موبائل سمز ڈیٹا کا انٹرنیٹ پر فروخت ہونا نہ صرف پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک کے مسئلے کو انتہائی حساس معاملہ سمجھا جا رہا ہے۔
ماہرین کی رائے
سائبر سیکیورٹی کے ماہرین کے مطابق یہ صرف ایک تکنیکی ناکامی نہیں بلکہ ایک پورے نظام کی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے مطابق وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک کے معاملے پر تیزی سے ایکشن لینا ضروری تھا تاکہ آئندہ ایسے خطرناک لیکس کو روکا جا سکے۔
عوامی ردعمل
اس خبر کے بعد عوام میں بھی شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ کئی شہریوں نے سوشل میڈیا پر مطالبہ کیا کہ ان کے ذاتی ڈیٹا کو محفوظ بنایا جائے۔ بہت سے صارفین کا کہنا تھا کہ اگر حکومتی شخصیات کا ڈیٹا محفوظ نہیں ہے تو عام عوام کے ڈیٹا کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟ اس دباؤ کے بعد وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک کیس پر سختی سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔
حکومت کے لیے چیلنج
ڈیٹا لیک اسکینڈل حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اس سے نہ صرف عوامی اعتماد متاثر ہوا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک کیس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
مستقبل کے اقدامات
وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد سخت اقدامات کیے جائیں گے تاکہ مستقبل میں ڈیٹا لیک کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ مزید یہ کہ سائبر سیکیورٹی کے نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک اسکینڈل اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈیجیٹل تحفظ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
رپورٹ نے ڈیجیٹل سیکیورٹی کے خطرات کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک پر سخت ایکشن لے چکے ہیں اور کمیٹی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اس مسئلے کی تہہ تک پہنچے۔ عوام اور ماہرین دونوں کو امید ہے کہ اس تحقیق کے بعد ایسا مؤثر نظام بنایا جائے گا جو ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بنا سکے۔
شبانہ محمود برطانوی وزیر داخلہ بن گئیں، پاکستانی نژاد رہنما کو کابینہ میں بڑا عہدہ ملا
