ملک میں گندم کا بحران — بڑھتی قیمتیں، کم ہوتی رسد، اور عوام کی پریشانی
پاکستان میں ملک میں گندم کا بحران ایک بار پھر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سیلابی تباہ کاریوں، حکومتی پالیسیوں میں سستی، اور صوبائی سطح پر رسد کے مسائل نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے مہینوں میں ملک میں گندم کا بحران ایک بڑے غذائی چیلنج کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
سیلابی نقصان اور فصل کی تباہی
رواں برس ہونے والی شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث ملک کے کئی زرعی علاقے بری طرح متاثر ہوئے۔ خاص طور پر سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حالات نے ملک میں گندم کے بحران کی بنیاد رکھ دی ہے۔
محکمہ زراعت کے ابتدائی تخمینے کے مطابق، اس سال گندم کی مجموعی پیداوار 10 سے 15 فیصد تک کم ہونے کا امکان ہے۔ اس کمی کی وجہ سے ملکی منڈیوں میں گندم کی رسد کم جبکہ طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً ملک میں گندم کا بحران پیدا ہو رہا ہے جو آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں عوام پر بوجھ بن گیا ہے۔
مارکیٹ کی صورتحال — قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ
ملک کی مختلف منڈیوں میں گندم کی قیمتیں تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
کراچی میں 100 کلوگرام گندم کی بوری کی قیمت 9,300 روپے تک جا پہنچی ہے، جبکہ چند ہفتے قبل یہی بوری 7,200 روپے میں دستیاب تھی۔
لاہور، اسلام آباد، اور راولپنڈی میں قیمتیں 900 سے 1,000 روپے فی بوری بڑھ چکی ہیں۔
پشاور میں گندم کی بوری 9,800 روپے میں، جبکہ کوئٹہ میں 9,600 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔
یہ تمام اعداد و شمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ملک میں گندم کا بحران صرف پیداوار کی کمی نہیں بلکہ انتظامی ناکامیوں کا نتیجہ بھی ہے۔
آٹے کی قیمتوں میں عوامی مشکلات
آٹے کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔
کراچی میں 50 کلو آٹے کا تھیلا 5,000 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
چھوٹے شہروں میں یہی تھیلا 4,800 سے 5,200 روپے تک میں دستیاب ہے۔
اس تیزی سے ہونے والا اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں گندم کا بحران اب گھریلو سطح پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔
متوسط اور غریب طبقے کے لیے روزمرہ کی روٹی مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔
حکومت کی خاموشی اور پالیسی پر سوالیہ نشان
اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان اتحاد خالد حسین باٹھ نے کہا کہ حکومت کی ناقص حکمت عملی نے ملک میں گندم کے بحران کو سنگین بنا دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ میں گندم اس وقت 4,000 روپے فی من جبکہ پنجاب میں 3,900 روپے فی من مل رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ:
“میں اس وقت کوئٹہ میں ہوں، جہاں گندم 4,500 روپے فی من تک جا پہنچی ہے، اور نئی فصل آنے میں کم از کم سات ماہ باقی ہیں۔ آنے والے دنوں میں قیمتوں میں مزید اضافہ یقینی ہے۔”
گندم کے ذخیرے کا دعویٰ — حقیقت یا فریب؟
حکومت کی جانب سے بارہا یہ مؤقف دیا گیا ہے کہ ملک میں گندم کا کافی ذخیرہ موجود ہے۔ مگر ماہرین اور تاجروں کے مطابق اگر واقعی ذخیرہ اتنا زیادہ ہوتا تو ملک میں گندم کا بحران اس سطح تک نہ پہنچتا۔
خالد حسین باٹھ نے حکومت کے اس دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا:
“میں وفاقی وزیر کو کھلے عام مباحثے کا چیلنج دیتا ہوں، تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ حقیقت میں گندم کا بحران کس حد تک سنگین ہو چکا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے صوبوں کے درمیان گندم کی منتقلی پر پابندی نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں۔ اس اقدام سے مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا ہوئی ہے، جو ملک میں گندم کے بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے۔
ماہرین کی رائے — بحران سے نکلنے کے ممکنہ راستے
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر درآمدی گندم کا فیصلہ نہ کیا تو آئندہ مہینوں میں ملک میں گندم کا بحران سنگین تر ہو جائے گا۔
ان کے مطابق:
حکومت کو فوری طور پر 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنی چاہیے۔
فلور ملز کو سبسڈی دی جائے تاکہ مارکیٹ میں آٹے کی قیمت قابو میں رہے۔
سپورٹ پرائس مقرر کی جائے تاکہ کاشت کار آئندہ سال زیادہ گندم کاشت کرنے کی ترغیب پائیں۔
ماہرین نے یہ بھی کہا کہ اگر پالیسی میں تسلسل نہ رہا تو آئندہ سال بھی ملک میں گندم کا بحران برقرار رہے گا، اور پاکستان کو بیرونی قرضوں کے ساتھ ساتھ خوراک کے بحران کا بھی سامنا ہوگا۔
عوامی ردعمل اور خدشات
مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال کے باعث عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے وعدے صرف بیانات تک محدود ہیں جبکہ مارکیٹ میں روزانہ قیمتوں کا نیا جھٹکا ملتا ہے۔
گھریلو خواتین کے مطابق آٹا، دال اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے بجٹ کا توازن بگاڑ دیا ہے۔
ایک شہری نے کہا:
“اگر اسی رفتار سے آٹا مہنگا ہوا تو عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی خریدنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ حکومت صرف بیان بازی کے بجائے عملی اقدامات کرے۔”
بحران کے ممکنہ اثرات
اگر ملک میں گندم کا بحران اسی طرح جاری رہا تو اس کے اثرات معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی پڑیں گے۔
بیکری اور فوڈ انڈسٹری میں مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی۔
نچلے طبقے میں غذائی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
مہنگائی کی مجموعی شرح مزید بلند ہو جائے گی۔
حکومت پر عوامی دباؤ بڑھے گا کہ وہ درآمد اور سبسڈی کے اقدامات کرے۔
مستقبل کی حکمتِ عملی — حکومت کے لیے چیلنج
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج صرف ملک میں گندم کے بحران کو روکنا نہیں بلکہ مستقبل میں اس کی تکرار سے بچاؤ بھی ہے۔
ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ:
زرعی تحقیق اور بیجوں کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔
کاشت کاروں کو جدید مشینری اور سہولیات فراہم کی جائیں۔
غیر قانونی ذخیرہ اندوزی پر سخت کارروائی کی جائے۔
عوامی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ ضیاع روکا جا سکے۔
گندم کی قیمتوں میں استحکام – پنجاب حکومت کی نئی حکمت عملی 2025
موجودہ حالات میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں گندم کا بحران محض عارضی مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہرا معاشی اور انتظامی بحران بنتا جا رہا ہے۔
اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیے تو آنے والے موسم میں آٹا عام آدمی کی پہنچ سے مزید دور ہو جائے گا۔
عوام کی توقع ہے کہ پالیسی ساز ادارے اس بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں تاکہ خوراک کی سلامتی یقینی بنائی جا سکے۔