پی ٹی آئی سینیٹرز نے حلف اٹھایا | مراد سعید روپوش
پی ٹی آئی سینیٹرز کا حلف، مراد سعید کی غیر موجودگی نے کئی سوالات کھڑے کر دیے
اسلام آباد — خیبرپختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے تین سینیٹرز نے سینیٹ کے اجلاس میں حلف اٹھا لیا ہے، جب کہ جنرل نشست پر کامیاب ہونے والے مراد سعید تاحال روپوش ہیں اور سینیٹ اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔
چیئرمین سینیٹ نے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے نومنتخب سینیٹرز — فیصل جاوید، نورالحق قادری، اور مرزا محمد آفریدی — سے حلف لیا۔ حلف برداری کے بعد سینیٹ ہال میں پی ٹی آئی کے حق میں نعرے بھی بلند کیے گئے۔
بلامقابلہ کامیابی اور سیاسی منظرنامہ
یاد رہے کہ تین روز قبل خیبرپختونخوا میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے جن میں سے 6 کا تعلق پی ٹی آئی جبکہ 5 کا اپوزیشن جماعتوں سے تھا۔ جنرل نشست پر کامیاب ہونے والوں میں مراد سعید کا نام بھی شامل ہے، جو کئی ماہ سے روپوش ہیں اور عدالتوں میں مطلوب ہیں۔
مراد سعید کی غیر حاضری: سوالات اور قیاس آرائیاں
مراد سعید کی مسلسل غیر موجودگی اور حلف نہ اٹھانا سیاسی مبصرین کے لیے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کچھ حلقے ان کی حاضری کو سیاسی طور پر اہم قرار دے رہے تھے تاکہ پی ٹی آئی اپنی عددی برتری کا مظاہرہ کر سکے۔ تاہم ان کی عدم موجودگی نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔
قانونی پہلو اور آئندہ لائحہ عمل
قانونی ماہرین کے مطابق اگر کوئی رکن منتخب ہونے کے بعد مقررہ مدت میں حلف نہ اٹھائے تو اس کی رکنیت معطل یا منسوخ بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے سینیٹ کے قواعد و ضوابط اور الیکشن کمیشن کے قوانین کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پارٹی ردعمل اور عوامی تجزیہ
پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے مراد سعید کے بارے میں کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر صارفین اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں کہ پارٹی نے مراد سعید کو انتخاب میں کیوں شامل کیا، جب کہ ان کی موجودگی ممکن نہ تھی۔
حلف اٹھانے والے سینیٹرز کا پس منظر
- فیصل جاوید خان: پارٹی ترجمان اور میڈیا میں متحرک چہرہ، پارلیمانی تجربہ رکھتے ہیں۔
- نورالحق قادری: سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور، بااثر قبائلی شخصیت۔
- مرزا محمد آفریدی: فاٹا سے تعلق، پی ٹی آئی کے حمایتی رہنما، سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین۔
نتیجہ:
پی ٹی آئی کے تین سینیٹرز کا حلف پارٹی کے لیے خوش آئند پیش رفت ہے، تاہم مراد سعید کی غیر موجودگی پارٹی کے اندر اور باہر دونوں سطحوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ منظرعام پر آتے ہیں یا ان کی نشست کسی نئے امیدوار کے لیے خالی سمجھی جائے گی۔