سعودی عرب میں 12000 سال پرانے نقوش کی حیران کن دریافت
دنیا بھر میں آثارِ قدیمہ کی دریافتیں ہمیشہ انسانی تاریخ کے بارے میں نئے راز کھولتی رہی ہیں، مگر حال ہی میں سعودی عرب میں ہونے والی ایک دریافت نے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔
شمالی سعودی عرب کے خطے حائل میں واقع النفود الصحرا میں ایسے پتھر دریافت ہوئے ہیں جن پر 12000 سال پرانے نقوش کندہ ہیں۔
یہ دریافت نہ صرف جزیرہ نما عرب بلکہ پوری انسانی تاریخ کے حوالے سے ایک انقلابی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
دریافت کہاں اور کیسے ہوئی؟
یہ حیران کن دریافت گرین اریبیا پراجیکٹ کے تحت ہوئی، جو سعودی ہیریٹیج کمیشن اور بین الاقوامی تحقیقی ٹیموں کے باہمی تعاون سے چلایا جا رہا ہے۔
اس پراجیکٹ کا مقصد جزیرہ نما عرب کے قدیم ماحولیاتی نظام، انسانی آبادیوں اور ثقافتی آثار کا مطالعہ کرنا ہے۔
تعمیراتی سرگرمیوں کے دوران، محققین کو 12000 سال پرانے نقوش والے تقریباً 176 پتھر ملے، جن پر مختلف جانوروں اور انسانوں کی تصاویر کندہ تھیں۔
پتھروں پر کندہ نقش و نگار کی تفصیل
یہ پتھر انسانی تاریخ کے ایک ایسے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں جب موجودہ سعودی عرب کا یہ علاقہ خشک صحرا نہیں بلکہ سرسبز و شاداب میدانوں پر مشتمل تھا۔
ان 12000 سال پرانے نقوش پر اونٹ، ہرن، گھوڑے، ولڈبیسٹ (جسے افریقی جانور سمجھا جاتا ہے) اور ایک عورت کی تصاویر کندہ ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں سے کئی جانور اب اس علاقے میں موجود نہیں پائے جاتے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس زمانے میں موسمی حالات بالکل مختلف تھے۔
کچھ پتھروں پر نقش اتنی بلند جگہوں پر بنائے گئے ہیں کہ انہیں بنانے والے لوگ خود بھی پورا منظر نہیں دیکھ سکتے تھے، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ نقش خاص مذہبی یا روحانی اہمیت رکھتے ہوں گے۔
تاریخی اہمیت اور انسانی ترقی کی جھلک
یہ 12000 سال پرانے نقوش انسانی فنونِ لطیفہ اور تخلیقی صلاحیت کے ابتدائی نمونوں میں سے ایک ہیں۔
یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس وقت کے انسان نہ صرف شکار کرتے تھے بلکہ اپنی زندگی، ماحول اور تجربات کو پتھروں پر محفوظ بھی کرتے تھے۔
ماہرین کے مطابق یہ فن صرف تصویری نہیں بلکہ علامتی بھی تھا، جو اس دور کے عقائد اور سماجی نظام کی نمائندگی کرتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کا ثبوت
ان پتھروں پر موجود 12000 سال پرانے نقوش اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ تقریباً 13,000 سے 16,000 سال قبل عرب خطہ آج کی طرح خشک نہیں تھا۔
اس دور میں یہاں بارشیں ہوا کرتی تھیں، پانی کے ذخائر موجود تھے، اور لوگ عارضی جھیلوں کے قریب آبادیاں قائم کرتے تھے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے یہ نظریہ مزید مضبوط ہوا ہے کہ انسان ابتدائی طور پر شمالی عرب سے افریقہ اور ایشیا کی طرف ہجرت کرتے رہے۔
قدیم فنِ نقش نگاری کے جدید تقابلی مطالعے
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 12000 سال پرانے نقوش کا انداز دنیا کے دیگر حصوں میں پائے جانے والے قدیم فن پاروں سے حیرت انگیز مشابہت رکھتا ہے۔
افریقہ، یورپ اور ایشیا میں پائے جانے والے پتھروں پر بنائے گئے قدیم نقش و نگار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اُس زمانے کے انسانوں میں فن اور اظہارِ خیال کی حیرت انگیز یکسانیت پائی جاتی تھی۔
یہ دریافت عالمی آثارِ قدیمہ کے محققین کے لیے ایک نیا دروازہ کھولتی ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ مختلف خطوں کے انسان کس طرح ایک جیسے نظریات اور فنون رکھتے تھے۔
176 پتھروں میں چھپی کہانی
مجموعی طور پر ماہرین کو 176 پتھروں پر کندہ 12000 سال پرانے نقوش ملے ہیں، جن میں سے تقریباً 130 نقوش "لائف سائز” یعنی حقیقی قد کے برابر ہیں۔
یہ فن پارے ظاہر کرتے ہیں کہ اُس دور کے انسانوں کو جانوروں کی جسمانی ساخت، حرکات اور ماحول کے بارے میں گہری سمجھ تھی۔
کچھ پتھروں پر اونٹوں کو قطاروں کی شکل میں دکھایا گیا ہے، جیسے وہ کسی قافلے کا حصہ ہوں۔
یہ منظر اس وقت کے سماجی اور تجارتی نظام کی جھلک بھی دکھاتا ہے۔
محققین کے بیانات
سعودی ہیریٹیج کمیشن کے ترجمان نے بتایا کہ یہ دریافت اس بات کی واضح علامت ہے کہ 12000 سال پرانے نقوش عرب دنیا کے ابتدائی انسانی تمدن کا ثبوت ہیں۔
بین الاقوامی ماہرین نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ دریافت صرف آرٹ نہیں بلکہ اُس وقت کے موسمی اور سماجی حالات کی عکاسی کرتی ہے۔
پروفیسر مائیکل پترسن، جو اس پراجیکٹ کے مرکزی ماہرین میں شامل ہیں، کا کہنا ہے:
“یہ نقوش ہمیں بتاتے ہیں کہ انسانی تخلیقی صلاحیت اور ثقافتی اظہار ہزاروں سال پہلے بھی اتنے ہی مضبوط اور بامقصد تھے جتنے آج ہیں۔”
سعودی عرب کا تاریخی ورثہ اور عالمی اہمیت
سعودی عرب پہلے ہی کئی قدیم آثارِ قدیمہ کی دریافتوں کے باعث عالمی توجہ حاصل کر چکا ہے۔
العیلا، مدائن صالح اور نیوم جیسے علاقے بھی اپنی تاریخی اہمیت کے باعث مشہور ہیں۔
اب 12000 سال پرانے نقوش کی یہ دریافت اس ورثے میں ایک نیا اضافہ ہے، جو نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری دنیا کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
یہ دریافت مستقبل میں سیاحت، تعلیم، اور تحقیق کے میدان میں بھی نئی راہیں کھول سکتی ہے۔
گرین اریبیا پراجیکٹ کا مقصد
گرین اریبیا پراجیکٹ کا بنیادی مقصد جزیرہ نما عرب میں انسانی ارتقاء اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باہمی تعلق کو سمجھنا ہے۔
ان 12000 سال پرانے نقوش نے اس پراجیکٹ کو ایک نئی سمت دے دی ہے، کیونکہ اب ماہرین کے پاس مادی شواہد موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ عرب دنیا میں انسانی زندگی ہزاروں سال پہلے سے پھل پھول رہی تھی۔
زحل کے چاند پر زندگی کے مزید ثبوت دریافت
12000 سال پرانے نقوش صرف پتھروں پر بنائی گئی تصاویر نہیں بلکہ انسانی تہذیب، تخلیق، اور بقا کی کہانی سناتے ہیں۔
یہ نقوش بتاتے ہیں کہ انسان نے اپنے ماحول کے ساتھ تعلق کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسے پتھروں پر محفوظ بھی کیا۔
سعودی عرب کی یہ دریافت انسانی تاریخ کا ایک نیا باب ہے جو آنے والی نسلوں کو یہ سکھائے گی کہ انسان ہمیشہ اپنی شناخت، فن اور عقائد کو محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔