سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں، ریلوے حکام حرکت میں آگئے
سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں – ایک افسوسناک واقعہ جس نے نہ صرف ریلوے حکام کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ مسافروں کو بھی شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ سکھر سے کراچی جانے والی مشہور مسافر ٹرین "سکھر ایکسپریس” کی 146 ڈاؤن ٹرین جب اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی تو اچانک حادثے کا شکار ہو گئی اور اس کی تین بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔
واقعے کی تفصیلات
ابتدائی رپورٹس کے مطابق، جب سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں تو ٹرین تیز رفتار میں نہیں تھی لیکن اس کے باوجود حادثے نے مسافروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کئی مسافر جو اس وقت سو رہے تھے وہ اچانک دھچکوں سے بوگیوں میں گر پڑے۔ خوش قسمتی سے کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہوا تاہم چند مسافر معمولی زخمی ہوئے جنہیں فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔
ریلوے حکام نے بتایا کہ جیسے ہی سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں تو ڈاؤن ٹریک فوری طور پر بند ہو گیا جس کی وجہ سے دیگر ٹرینوں کی آمدورفت بری طرح متاثر ہوئی۔
ریلوے حکام کا ردعمل
حادثے کے بعد ریلوے کے اعلیٰ حکام اور ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ بھاری مشینری اور عملے کو طلب کر کے پٹڑی کی بحالی کا کام شروع کر دیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ ٹریک کو مکمل بحال کرنے میں کم از کم چار گھنٹے لگیں گے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں بلکہ اس سے قبل بھی ریلوے ٹریکس کی خستہ حالی کے باعث ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔
مسافروں کی مشکلات
جب سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں تو اس حادثے کے باعث سیکڑوں مسافر گھنٹوں پھنس کر رہ گئے۔ خواتین اور بچوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گرمی اور سہولیات کی کمی نے صورتحال مزید خراب کر دی۔ کئی مسافر ایسے بھی تھے جو کراچی میں اپنے کاروباری یا ذاتی کاموں کے لیے جا رہے تھے لیکن یہ حادثہ ان کے لیے تاخیر اور ذہنی دباؤ کا باعث بنا۔
حادثے کی ممکنہ وجوہات
ماہرین کے مطابق، جب سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں تو اس کی ایک بڑی وجہ ریلوے لائنوں کی ناقص حالت اور بروقت دیکھ بھال نہ ہونا ہو سکتا ہے۔ پاکستان ریلوے کو برسوں سے اسی مسئلے کا سامنا ہے۔ زنگ آلود پٹڑیاں، پرانی بوگیاں اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی ان حادثات میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔
مستقبل کے اقدامات
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آخر کب تک مسافر اس طرح کی خطرناک صورتحال کا سامنا کرتے رہیں گے؟ اگرچہ حکام بار بار وعدے کرتے ہیں کہ سسٹم کو بہتر بنایا جائے گا، لیکن جب بھی سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں جیسا حادثہ پیش آتا ہے تو ان وعدوں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
عوامی ردعمل
عوامی سطح پر بھی اس حادثے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے کہا کہ جب بھی سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں جیسے واقعات سامنے آتے ہیں تو پاکستان ریلوے کی نااہلی اور غفلت واضح نظر آتی ہے۔ کئی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ریلوے کے نظام کو جدید بنانے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کیے جائیں۔
فرید ایکسپریس حادثہ: پاکستان ریلوے کے نظام پر بڑا سوالیہ نشان
حادثہ چاہے معمولی ہو یا بڑا، ہر بار جب سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ مسافروں کی جانوں کو کب محفوظ بنایا جائے گا؟ عوام اب صرف بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔
اس واقعے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان ریلوے کو بنیادی ڈھانچے کی مرمت اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی اشد ضرورت ہے، ورنہ سکھر ایکسپریس بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں جیسے واقعات بار بار پیش آتے رہیں گے اور عوام کا ریلوے پر اعتماد مزید کمزور ہوتا جائے گا۔