راولپنڈی میں ڈینگی کیسز میں اضافہ، 2025 میں صورتحال تشویشناک
سال 2025 کے دوران راولپنڈی شہر میں ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ نے ایک بار پھر عوامی صحت کے حوالے سے سنجیدہ خدشات کو جنم دیا ہے۔ محکمہ صحت راولپنڈی کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق، رواں سال اب تک مجموعی طور پر 11 ہزار 650 افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں، جن میں سے 730 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف خطرے کی گھنٹی ہیں بلکہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ ڈینگی وائرس کا پھیلاؤ قابو سے باہر ہو رہا ہے۔
تازہ ترین صورتحال
راولپنڈی میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 25 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جس کے بعد اسپتالوں میں زیرِ علاج مریضوں کی تعداد 61 ہو چکی ہے۔ یہ مریض شہر کے مختلف سرکاری و نجی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جنہیں خصوصی نگہداشت میں رکھا گیا ہے تاکہ مزید پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔
ڈینگی سے اموات اور خطرناک پہلو
حکام کی جانب سے اس بات کی تصدیق بھی کی گئی ہے کہ رواں سیزن میں ڈینگی وائرس کے باعث متعدد اموات بھی ہو چکی ہیں، جو اس بیماری کی شدت اور خطرناکی کو ظاہر کرتی ہیں۔ تاہم صحیح تعداد واضح نہیں کی گئی۔ اموات کی وجوہات میں تاخیر سے علاج، احتیاطی تدابیر کی عدم پیروی اور بروقت تشخیص کا نہ ہونا شامل ہیں۔
انسدادِ ڈینگی مہم اور چیکنگ کے اقدامات
ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی راولپنڈی کی جانب سے شہر بھر میں انسدادِ ڈینگی مہم کے تحت وسیع پیمانے پر کارروائیاں کی گئیں۔ رواں سال کے دوران:
- 54 لاکھ 51 ہزار 682 گھروں کی چیکنگ کی گئی۔
- ان میں سے 1 لاکھ 47 ہزار 907 مقامات پر ڈینگی لاروا کی موجودگی کی نشاندہی ہوئی۔
- مجموعی طور پر 1 لاکھ 89 ہزار 101 لاروا مختلف مقامات سے برآمد کیے گئے۔
- 1 لاکھ 66 ہزار 620 مقامات کی تفصیلی چھان بین کے بعد 22 ہزار 481 جگہوں کو "پازیٹو” یعنی خطرناک قرار دیا گیا۔
یہ اقدامات واضح کرتے ہیں کہ ڈینگی کے پھیلاؤ میں ماحول اور صفائی کی صورتحال کا بہت بڑا ہاتھ ہے، خاص طور پر وہ علاقے جہاں پانی کھڑا رہتا ہے اور صفائی کا فقدان ہے۔
قانونی کارروائی اور جرمانے
ڈینگی ایس او پیز کی خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی بھی کی گئی، جس میں:
- 1499 گھروں سے ڈینگی لاروا برآمد ہوا۔
- 4359 ایف آئی آرز درج کی گئیں۔
- 1838 مقامات کو سیل کیا گیا۔
- 10 لاکھ 78 ہزار 507 روپے کے جرمانے عائد کیے گئے۔
یہ اعداد و شمار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ متعلقہ ادارے اپنی کوششوں میں سنجیدہ ہیں، لیکن عوام کی عدم تعاون کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔
متاثرہ علاقے
ڈینگی وائرس راولپنڈی کے مخصوص علاقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ حالیہ کیسز ان علاقوں سے رپورٹ ہوئے ہیں:
- دھمیال
- رحمت آباد
- مسلم ٹاؤن (مشرقی اور مغربی)
- گنگال
- ڈھوک منگٹال
- ہزارہ کالونی
- کوٹھہ کلاں
- صدیق آباد
- ڈھوک کالا خان
- شکریال نارتھ
یہ تمام علاقے وہ ہیں جہاں عمومی طور پر آبادی کا دباؤ زیادہ ہے اور صفائی کے نظام میں بہتری کی شدید ضرورت ہے۔
عوامی شعور کی کمی: ایک بڑا چیلنج
انسداد ڈینگی اقدامات میں سب سے بڑی رکاوٹ عوامی شعور اور رویے کی کمی ہے۔ بیشتر افراد گھروں میں پانی ذخیرہ کرتے وقت احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے، پودوں کے گملوں میں پانی جمع رہتا ہے، ٹینکیوں کو ڈھانپا نہیں جاتا، اور اردگرد کے ماحول کی صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہی عوامل ڈینگی لاروا کی افزائش کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں۔
حکومت اور اداروں کی سفارشات
ہیلتھ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ نے عوام سے درج ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی اپیل کی ہے:
- گھروں اور دفاتر کے اردگرد پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔
- پانی کی ٹینکیوں، کولرز اور دیگر برتنوں کو ڈھانپ کر رکھیں۔
- گملوں میں جمع پانی کو روزانہ تبدیل کریں۔
- صبح و شام مچھر مار اسپرے کا استعمال کریں۔
- پوری آستین والے کپڑے پہنیں، خاص طور پر بچوں کو۔
- بخار، جسم میں درد یا دیگر علامات کی صورت میں فوری طور پر قریبی مرکز صحت سے رجوع کریں۔
مستقبل کے لیے لائحہ عمل
اگرچہ راولپنڈی میں انسدادِ ڈینگی مہم جزوی طور پر کامیاب رہی ہے، مگر اس کو مؤثر بنانے کے لیے مستقل بنیادوں پر درج ذیل اقدامات درکار ہیں:
- عوامی آگاہی مہمات میں تسلسل
- تعلیمی اداروں میں حفاظتی تدابیر کی تربیت
- صفائی کے نظام میں بہتری اور نگرانی
- بلدیاتی سطح پر مربوط اقدامات
- جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے لاروا کی نشاندہی و خاتمہ
راولپنڈی میں ڈینگی وائرس ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے صرف حکومتی کوششیں کافی نہیں ہیں۔ جب تک عوام خود اس بیماری کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کریں گے، تب تک اس وائرس پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ وقت ہے کہ ہم سب بحیثیت قوم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، ماحول کو صاف رکھیں، اور صحت کے اصولوں پر عمل کر کے نہ صرف خود کو بلکہ پورے معاشرے کو اس جان لیوا وائرس سے محفوظ بنائیں۔

Comments 1