توشہ خانہ 2 کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 342 کے تحت سوالنامے، آخری موقع دے دیا گیا
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ 2 کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اسپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند کی زیر صدارت اڈیالہ جیل میں ہونے والی سماعت میں استغاثہ کے آخری گواہ پر جرح مکمل کر لی گئی، جبکہ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 342 کے تحت دونوں ملزمان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا آخری موقع فراہم کر دیا ہے۔
یہ مقدمہ طویل قانونی عمل کے مختلف مراحل سے گزر چکا ہے اور اب اپنے اہم ترین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں ملزمان کو اپنے دفاع کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 342 کے تحت سوالنامہ جاری کر دیا ہے جس میں ہر ایک سے 29 سوالات پر تحریری جواب مانگا گیا ہے۔
سماعت کی تفصیلات:
توشہ خانہ 2 کیس کی سماعت انتہائی سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل میں کی گئی، جہاں عدالت نے مقدمے کے تمام فریقین کو طلب کر رکھا تھا۔ سماعت کے دوران عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا، جو عدالتی حکم کے مطابق اس کیس میں باقاعدہ ملزمان کے طور پر نامزد ہیں۔
عدالت نے جرح کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد آئین کی دفعہ 342 کے تحت کارروائی آگے بڑھائی، جس کے تحت ملزمان کو خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ وکیلِ صفائی قوسین فیصل مفتی نے استغاثہ کے آخری گواہ محسن ہارون پر مکمل جرح کی، جس کے بعد پراسیکیوشن کی جانب سے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا گیا کہ شہادت مکمل ہو چکی ہے۔
342 کے تحت سوالنامہ: قانونی اہمیت اور آئندہ لائحہ عمل
آئین پاکستان کے تحت سیکشن 342 کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب عدالت سمجھتی ہے کہ مقدمے میں ملزم کو اپنا مؤقف بیان کرنے اور دفاع میں ثبوت یا گواہ پیش کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔ یہ قانونی کارروائی شفاف ٹرائل کا حصہ سمجھی جاتی ہے تاکہ ملزم کو مکمل دفاع کا حق حاصل ہو۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کو دیے گئے 29 سوالات پر مشتمل سوالنامے میں ان سے مقدمے کے مختلف پہلوؤں پر وضاحت طلب کی گئی ہے۔ ان سوالات میں ممکنہ طور پر درج ذیل نکات شامل ہو سکتے ہیں:
توشہ خانہ سے تحائف کی خریداری کے ضوابط
- خریداری میں قیمت کا تعین
- اثاثہ جات میں ان تحائف کی تفصیلات کی فراہمی
- سرکاری عہدہ رکھنے کے دوران ایسے تحائف کو ذاتی ملکیت بنانے کا جواز
- کسی قسم کی مالی بے ضابطگی یا قوانین کی خلاف ورزی کی تردید یا وضاحت
عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ 342 کے تحت ملزمان کو اپنا دفاع پیش کرنے اور گواہ لانے کا بھی پورا موقع دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں وکلاء صفائی کو 8 اکتوبر تک مہلت دی گئی ہے تاکہ وہ سوالنامے کے جوابات عدالت میں جمع کروا سکیں۔
عدالتی کارروائی کے دوران اہم شخصیات کی موجودگی
آج کی سماعت کے دوران نہ صرف قانونی ٹیمیں بلکہ سیاسی و سماجی سطح کی اہم شخصیات بھی عدالت میں موجود تھیں۔ ان میں نمایاں نام یہ ہیں:
- سینیٹر علی ظفر: جو پی ٹی آئی کے سینئر قانونی مشیر ہیں اور متعدد کیسز میں عمران خان کے وکیل کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
- سینیٹر مشال یوسف زئی: پی ٹی آئی کی اہم رہنما جو بشریٰ بی بی کے دفاع میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
- بیرسٹر سلمان اکرم راجہ: معروف آئینی ماہر، جو ماضی میں بھی اہم کیسز میں نمایاں رہے ہیں۔
- بیرسٹر سیف: خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر، جو پارٹی مؤقف کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کی تینوں بہنیں بھی سماعت کے دوران عدالت میں موجود رہیں، جس سے کیس کی حساسیت اور جذباتی پہلو بھی اجاگر ہوتا ہے۔
پراسیکیوشن کی ٹیم اور ان کی تیاری
وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی اور بلال بٹ نے عدالت میں استغاثہ کا مؤقف مضبوطی سے پیش کیا، جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹرز بیرسٹر عمیر مجید اور شہروز گیلانی بھی سماعت کے دوران موجود رہے۔ استغاثہ نے موقف اختیار کیا کہ ان کے تمام گواہوں کی شہادت مکمل ہو چکی ہے اور عدالت اب دفاع کی باری شروع کرے۔
آگے کیا ہو سکتا ہے؟
8 اکتوبر کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کی جانب سے سوالنامے کے جوابات جمع کروانے کے بعد عدالت یہ جائزہ لے گی کہ آیا ملزمان نے اپنی بے گناہی کے لیے کافی شواہد یا دلائل فراہم کیے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد ممکنہ طور پر:
- ملزمان اپنے دفاع میں گواہ پیش کر سکتے ہیں۔
- عدالت فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر سکتی ہے۔
- یا مزید قانونی نکات پر کارروائی کی جا سکتی ہے، اگر کوئی پیچیدگی سامنے آئے۔
سیاسی و قانونی اثرات
یہ کیس نہ صرف قانونی لحاظ سے بلکہ سیاسی طور پر بھی انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ توشہ خانہ سے متعلق الزامات عمران خان کی سابق حکومت کے دور سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ معاملہ اس وقت منظرعام پر آیا جب مختلف حلقوں کی جانب سے حکومتِ وقت پر شفافیت کے سوالات اٹھائے گئے۔ اب جبکہ عمران خان اور ان کی اہلیہ اس کیس میں براہ راست فریق بن چکے ہیں، تو اس کا اثر نہ صرف ان کی قانونی حیثیت بلکہ ان کے سیاسی مستقبل پر بھی پڑ سکتا ہے۔
توشہ خانہ 2 کیس اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہا ہے۔ عدالت نے آئین کے تحت عمران خان اور بشریٰ بی بی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عدالتی کارروائی شفافیت، قانون کی بالادستی، اور منصفانہ ٹرائل کے اصولوں کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے۔
8 اکتوبر کی سماعت اس کیس کا ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس دن ملزمان کی جانب سے دیے گئے جوابات کیس کے حتمی رخ کا تعین کرنے میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔ اگر دفاع اپنی پوزیشن واضح کرنے میں کامیاب رہا، تو کیس کا رخ ممکنہ طور پر ان کے حق میں جا سکتا ہے، بصورت دیگر قانونی کارروائی کسی اور سطح پر جا سکتی ہے۔
