غزہ جنگ بندی معاہدہ باضابطہ نافذ، اسرائیلی فوج کا انخلا شروع
غزہ میں جنگ بندی کا آغاز: اسرائیل اور حماس کے درمیان تاریخی معاہدے کی تفصیل
طویل اور خونریز جنگ کے بعد بالآخر ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے باضابطہ اعلان کیا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدہ نافذ العمل ہو چکا ہے۔ اس اعلان نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں ایک نئی امید کو جنم دیا ہے کہ شاید برسوں پرانی دشمنی اور تباہی کے سلسلے کو روکا جا سکے۔
اس معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں حماس کی قید سے 11 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جا رہا ہے، جب کہ اسرائیلی افواج نے غزہ کے اندرونی علاقوں سے پیچھے ہٹنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب عرب میڈیا کے مطابق، جنگ بندی کے بعد غزہ کے متاثرہ شہریوں نے اپنے گھروں کی طرف واپسی کا آغاز کر دیا ہے، حالانکہ بیشتر علاقوں میں تباہی کے مناظر اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی بدستور موجود ہے۔
معاہدے کی منظوری اور امریکی کردار
اس معاہدے کو ممکن بنانے میں کئی بین الاقوامی قوتوں نے کردار ادا کیا، جن میں امریکہ، مصر، قطر اور ترکی سرفہرست ہیں۔ خاص طور پر اسرائیلی کابینہ کی منظوری اس ڈیل کی قانونی حیثیت کے لیے ایک اہم قدم تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی صدارت میں ہونے والے خصوصی اجلاس میں معاہدے کی منظوری دی گئی، جس میں امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر بھی شریک تھے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق:
"تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے تقریباً 2000 فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج غزہ کے 53 فیصد حصے سے تدریجی انخلا کرے گی۔”
معاہدے کے تحت 72 گھنٹوں کے اندر اندر حماس کو تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ اس مدت میں جنگ بندی کی مکمل پابندی کی جائے گی، اور کسی بھی فریق کی جانب سے خلاف ورزی پر بین الاقوامی فورس کو مداخلت کا اختیار حاصل ہوگا۔
معاہدے کی شرائط: اہم نکات
اس معاہدے کی تفصیل درج ذیل نکات پر مشتمل ہے:
جنگ بندی کا فوری نفاذ – اسرائیلی فوج اور حماس دونوں کو جنگی کارروائیاں بند کرنا ہوں گی۔
قیدیوں کا تبادلہ – 2000 فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالی رہا کیے جائیں گے۔
فوجی انخلا – اسرائیلی فوج غزہ کے اندرونی علاقوں سے واپس اپنی پوزیشن پر آئے گی، 53 فیصد علاقہ خالی کیا جائے گا۔
بین الاقوامی فورس کی تعیناتی – 200 اہلکاروں پر مشتمل فورس معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی، جس میں مصر، قطر، ترکی، اور ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات شامل ہوں گے۔
بحالی اور تعمیر نو – جنگ زدہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک عالمی فنڈ تشکیل دیا جائے گا، جس کی نگرانی اقوام متحدہ کرے گی۔
امن منصوبے کا پس منظر
یہ جنگ بندی کسی ایک دن کی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ مہینوں پر محیط سفارتی رابطوں، مذاکرات، اور تنازع کی شدت کے بعد ممکن ہوئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس بحران کو ختم کرنے کے لیے 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جسے پاکستان سمیت آٹھ مسلم ممالک کی حمایت حاصل ہوئی۔ حیرت انگیز طور پر، اسرائیل نے بھی اس منصوبے کو قابلِ عمل قرار دے کر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔
اس کے بعد مصر میں ہونے والی بند دروازوں کے پیچھے بات چیت نے جنگ بندی کی راہ ہموار کی۔ اس عمل میں قطر اور ترکی نے بھی ثالثی کا اہم کردار ادا کیا۔ دو روز قبل مذاکرات کامیاب ہوئے اور اب باضابطہ طور پر اس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔
غزہ کے شہریوں کی واپسی: امید اور مایوسی ساتھ ساتھ
جنگ بندی کے بعد ہزاروں بے گھر فلسطینی شہری اپنے تباہ حال گھروں کی طرف لوٹنا شروع ہو چکے ہیں۔ عرب میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، غزہ کی گلیوں میں سکون کے آثار تو دکھائی دے رہے ہیں، مگر تباہ شدہ عمارات، ملبے کے ڈھیر، اور پانی و بجلی کی عدم دستیابی شہریوں کے لیے ایک نئے امتحان سے کم نہیں۔
ایک مقامی فلسطینی شہری نے کہا:
"ہم جنگ سے تھک چکے ہیں۔ اب ہمیں صرف سکون، راشن اور پانی چاہیے۔ ہم دوبارہ زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔"
بین الاقوامی ردِعمل
اس امن معاہدے پر دنیا بھر سے ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں:
- اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسے "پہلا مثبت قدم” قرار دیا اور زور دیا کہ فریقین معاہدے کی مکمل پاسداری کریں۔
- پاکستان نے معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے فلسطینیوں کی آزادی اور ریاستی تشخص کی حمایت دہرائی۔
- ایران اور لبنان کی تنظیموں نے اس معاہدے کو وقتی وقفہ قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے خلاف ورزی کی تو نتائج بھگتنے ہوں گے۔
کیا جنگ ختم ہو گئی ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنگ بندی ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسئلہ فلسطین حل ہو چکا ہے۔ جب تک درج ذیل معاملات حل نہیں ہوتے، امن مستقل نہیں ہو سکتا:
- دو ریاستی حل کی واضح پیش رفت
- یروشلم کی حیثیت کا فیصلہ
- پناہ گزینوں کی واپسی اور قانونی حقوق
- فلسطینی ریاست کی اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت
نیا آغاز یا وقتی وقفہ؟
غزہ میں جنگ بندی ایک اہم اور ضروری قدم ہے، مگر یہ تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب فریقین اعتماد سازی کے عمل کو جاری رکھیں، معاہدے پر مکمل عمل درآمد ہو، اور عالمی برادری اس کی مسلسل نگرانی کرے۔
یہ معاہدہ ایک "نیا آغاز” بن سکتا ہے، بشرطیکہ اسے صرف عارضی خاموشی کے بجائے مستقل امن کی بنیاد بنایا جائے۔ فلسطینی عوام کی قربانیوں، مشکلات، اور عزم کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب عملی پیش رفت کرے، نہ کہ صرف وقتی جنگ بندی کو کامیابی تصور کرے۔
کیا آگے کا راستہ ہموار ہو گا؟
یہ سوال سب کے ذہن میں ہے کہ کیا یہ جنگ بندی دیرپا امن کی راہ ہموار کرے گی یا یہ بھی ماضی کی طرح ایک اور عارضی وقفہ ثابت ہو گی؟ آنے والے چند ہفتے اور مہینے اس سوال کا جواب دیں گے۔ لیکن ایک بات واضح ہے: عوام کی خواہش امن ہے، دشمنی نہیں۔