اسلام آباد کی جانب مارچ — حکومت اور مذہبی جماعت میں مذاکرات جاری، کئی مطالبات پر اتفاق
اسلام آباد: حالیہ دنوں میں اسلام آباد کی جانب مذہبی جماعت کی جانب سے کیے جانے والے احتجاجی مارچ کے تناظر میں حکومتِ پاکستان اور مذکورہ جماعت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں دونوں فریقین کے درمیان متعدد نکات پر گفت و شنید ہوئی ہے اور کئی معاملات پر مثبت پیشرفت بھی سامنے آئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی نمائندگی وفاقی وزراء رانا ثناء اللہ، خواجہ سلمان رفیق اور وزیر اعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی کر رہے ہیں۔ یہ تینوں شخصیات مذہبی جماعت کی قیادت سے مسلسل رابطے میں ہیں اور احتجاجی مارچ کو پرامن طریقے سے ختم کروانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں بعض مطالبات پر فریقین میں اتفاق رائے پیدا ہوا ہے جبکہ چند نکات پر مزید مشاورت جاری ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ احتجاجی مارچ کو ختم کروا کر صورتحال کو معمول پر لایا جائے، تاکہ شہریوں کو درپیش مشکلات میں کمی آئے اور کسی بھی ممکنہ تصادم یا بدامنی سے بچا جا سکے۔
احتجاج کی موجودہ صورتحال
اسلام آباد اور راولپنڈی میں مذہبی جماعت کی جانب سے احتجاجی مارچ کے باعث شہری زندگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ متعدد مرکزی شاہراہیں بند ہونے کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا، تاہم مذاکرات میں پیشرفت کے بعد بعض راستے کھول دیے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق فیض آباد انٹرچینج اور اطراف کے علاقوں میں ٹریفک کی روانی بہتر ہو رہی ہے، جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکیورٹی کی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اسی دوران، جزوی طور پر موبائل انٹرنیٹ سروس بھی بحال کر دی گئی ہے جو کہ احتجاج کے باعث معطل کی گئی تھی۔ یہ اقدام حکومت کی جانب سے کشیدگی میں کمی لانے اور معمولات زندگی کی بحالی کی کوششوں کا حصہ ہے۔
جماعت اسلامی کا مؤقف اور رابطے
صورتحال کی سنگینی اور اس کے اثرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے، نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور احتجاجی مارچ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ لیاقت بلوچ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مذہبی جماعت کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرے تاکہ معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکے۔
مریم اورنگزیب نے اس بات کی تصدیق کی کہ خواجہ سلمان رفیق مذہبی جماعت کی قیادت سے رابطے میں ہیں اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ احتجاج پرامن طور پر ختم ہو جائے اور شہریوں کو مزید مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مذہبی جماعت کی حکمت عملی
مذہبی جماعت کی قیادت کا کہنا ہے کہ ان کی مرکزی کمیٹی حکومت کے ساتھ مسلسل مذاکرات میں مصروف ہے اور تحریک سے وابستہ تمام کارکنان اور حامی افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ قیادت کے فیصلوں کا انتظار کریں اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ جماعت کے ترجمان کے مطابق احتجاج کسی فرد واحد کا فیصلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی تحریک کا حصہ ہے، جس کا مقصد عوامی اور مذہبی مطالبات کو اجاگر کرنا ہے۔
ترجمان نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جماعت کسی قسم کے تصادم کی خواہاں نہیں اور پرامن احتجاج ان کا آئینی حق ہے۔
پس منظر اور مطالبات
ذرائع کے مطابق مذہبی جماعت کے احتجاج کی بنیادی وجوہات میں بعض حکومتی پالیسیوں پر تحفظات، مذہبی معاملات میں حکومتی رویے، اور عوامی سطح پر بڑھتی ہوئی مہنگائی و بیروزگاری شامل ہیں۔ جماعت کا کہنا ہے کہ حکومت نے عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ایسی پالیسیوں کو ترجیح دی ہے جو مذہبی اور سماجی اقدار سے متصادم ہیں۔
احتجاجی مارچ کے شرکاء مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت نہ صرف ان کے مطالبات کو تسلیم کرے بلکہ آئندہ ایسے اقدامات سے بھی گریز کرے جو عوامی جذبات کو مجروح کرتے ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ مذہبی جماعت کا مطالبہ ہے کہ حکومت مذہبی آزادیوں کی ضمانت دے اور دینی حلقوں کو فیصلوں میں شامل کرے۔
ممکنہ نتائج اور چیلنجز
حکومت کے لیے یہ صورتحال ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک طرف ریاستی رٹ کو برقرار رکھنا ضروری ہے جبکہ دوسری جانب مذہبی جماعتوں سے تعلقات میں توازن بھی اہم ہے۔ اگر مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ صرف احتجاجی مارچ کا خاتمہ ممکن ہو گا بلکہ یہ حکومت اور مذہبی حلقوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی طرف بھی ایک قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
تاہم، اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اس کے سنگین سیاسی اور انتظامی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، جس میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ بھی شامل ہے۔ لہٰذا، حکومت اور مذہبی قیادت دونوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاملے کو سیاسی تدبر اور قومی مفاد کے تحت حل کریں۔
موجودہ حالات میں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ احتجاجی مارچ کے حوالے سے مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ فریقین کی سنجیدگی اور مسلسل رابطے اس بات کی امید دلاتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی، مذہبی اور ریاستی قیادت دانشمندی سے کام لے اور ملک میں امن، ہم آہنگی اور استحکام کو اولین ترجیح دے۔
