حماس کی جانب سے انسانی ہمدردی کے تحت اقدام
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے یرغمالیوں کی لاشیں حوالے کیں جو جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کا حصہ ہے۔
یہ اقدام 20 یرغمالیوں کی رہائی کے ایک روز بعد عمل میں آیا جب حماس نے 4 اسرائیلی مغویوں کی لاشیں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے اسرائیل کے حوالے کر دیں۔

چار اسرائیلی مغویوں کی شناخت
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، جن چار مغویوں کی لاشیں حماس نے حوالے کیں ان میں گائے ایلوز، یوسی شارابی، بپن جوشی، اور ڈینیئل پریز شامل ہیں۔
ان افراد کو غزہ میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران حماس نے قید کیا تھا۔
حماس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ باقی 24 لاشوں کی تلاش کا عمل جاری ہے کیونکہ تمام تدفینی مقامات کا مکمل علم نہیں ہے۔
20 یرغمالیوں کی رہائی — جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ
اس سے قبل، حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو زندہ حالت میں ریڈ کراس کے حوالے کیا تھا۔
رہائی پانے والے تمام افراد کو طبی معائنہ کے بعد ان کے خاندانوں سے ملا دیا گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق، یرغمالیوں کی حالت بہتر اور ذہنی طور پر مستحکم تھی۔
اس موقع پر عالمی برادری نے دونوں فریقین کے اس قدم کو مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی جانب ایک بڑی پیشرفت قرار دیا۔

فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور عوامی جوش و خروش
اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے ایک ہزار 968 فلسطینی قیدیوں کو مختلف جیلوں سے رہا کیا۔
رہائی پانے والے قیدیوں کو خصوصی بسوں کے ذریعے غزہ اور مغربی کنارے پہنچایا گیا۔
اہل خانہ برسوں بعد اپنے پیاروں سے مل کر جذباتی مناظر پیش کرتے نظر آئے — آنسو، مسکراہٹیں اور شکرگزاری کے مناظر ہر طرف دکھائی دیے۔
ایک فلسطینی شہری نے کہا،
“ہم اللہ کے شکر گزار ہیں اور حماس کی مزاحمت کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں عزت کے ساتھ رہائی دلائی۔”
جیلوں کے حالات اور قیدیوں کے بیانات
رہا ہونے والے قیدیوں نے اسرائیلی جیلوں میں بدترین حالات کا انکشاف کیا۔
ایک فلسطینی قیدی نے بتایا کہ “ہمیں رہائی سے چار دن قبل کوٹھریوں سے نکالا گیا، مسلسل تشدد کیا گیا اور ذلیل کیا گیا۔”
ان بیانات نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو متحرک کر دیا ہے، جو اسرائیلی قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
حماس کا مؤقف اور انسانی پہلو
حماس نے یرغمالیوں کی لاشیں حوالے کیں اور اپنے بیان میں کہا کہ یہ اقدام انسانی ہمدردی اور معاہدے پر عمل درآمد کے تسلسل کے طور پر کیا گیا۔
تنظیم کے ترجمان نے کہا کہ “ہم جنگ بندی کے ہر نکتے پر عمل کر رہے ہیں تاکہ خطے میں امن کی راہ ہموار ہو۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “ہمارا مقصد انسانی جانوں کا تحفظ اور فلسطینی عوام کی آزادی ہے، نہ کہ مزید خون خرابہ۔”
اسرائیل کا ردِعمل
اسرائیلی حکومت نے تصدیق کی کہ ریڈ کراس کے ذریعے چار مغویوں کی لاشیں وصول کی گئیں۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ “ہم لاپتہ شہریوں کی باقیات واپس لانے کے لیے ہر ممکن اقدام جاری رکھیں گے۔”
تاہم، اسرائیلی میڈیا کے مطابق، حکومت کے اندر اس معاہدے پر اب بھی اختلافات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر حماس کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر۔
بین الاقوامی برادری کی جانب سے خیر مقدم
اقوام متحدہ، قطر، مصر اور ترکی نے اس پیشرفت کو “امید کی کرن” قرار دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے مشترکہ بیان میں کہا کہ “یہ قدم مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے بنیاد ثابت ہو سکتا ہے۔”
عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر دونوں فریقین اس معاہدے پر قائم رہتے ہیں تو جلد ہی مزید انسانی تبادلے اور جنگ بندی کے اگلے مراحل طے کیے جا سکتے ہیں۔
انسانی المیے سے سیاسی حل تک
ماہرین کے مطابق، غزہ کی صورتحال ایک انسانی المیہ بن چکی ہے۔
حماس نے یرغمالیوں کی لاشیں حوالے کیں-یہ اقدام نہ صرف ایک انسانی جذبے کی علامت ہے بلکہ سیاسی حل کی جانب ایک علامتی پیشرفت بھی ہے۔
بین الاقوامی دباؤ کے باعث اسرائیل اور حماس دونوں اب سفارتی راستے اختیار کرنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔
غزہ میں انسانی امداد کی بحالی
جنگ بندی کے بعد مصر، پاکستان، ترکیہ اور دیگر ممالک سے انسانی امداد کی ترسیل دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔
ہسپتالوں اور ریلیف مراکز میں زخمیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ خوراک اور ادویات کی فراہمی بحال کی جا رہی ہے۔
پاکستان نے بھی حال ہی میں 24ویں امدادی کھیپ روانہ کی جس میں خوراک، ادویات اور طبی سازوسامان شامل ہے۔
حماس غزہ جنگ بندی معاہدہ کے تحت 20 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی
حماس نے یرغمالیوں کی لاشیں حوالے کیں- یہ ایک علامتی مگر طاقتور پیغام ہے کہ انسانی ہمدردی اب بھی جنگ کی راکھ میں زندہ ہے۔
یہ اقدام مستقبل میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پائیدار امن مذاکرات کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر جنگ بندی کے اس معاہدے پر خلوصِ نیت سے عمل کیا گیا تو یہ خطے کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کے لیے امید کی نئی کرن بن سکتا ہے۔