پاک افغان سرحد پر شدید جھڑپ؛ کرم سیکٹر میں افغان طالبان کی پوسٹیں تباہ، ٹینک بھی تباہ قرار
پشاور: — پاک فوج اور افغان طالبان کے مابین سرحدی علاقے کرم میں ایک بار پھر شدید جھڑپوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ افغان طالبان نے پاک سرزمین کے اندر بلااشتعال فائرنگ کی، جس کے جواب میں پاک فوج نے بروقت اور موثر جوابی کارروائی کرتے ہوئے متعدد طالبان پوسٹوں کو تباہ کیا اور ایک ٹینک بھی ناقابلِ استعمال بنا دیا گیا۔ واقعے کے بعد فرنٹی لائن پر کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا اور دونوں جانب سیکورٹی ہائی الرٹ جاری ہے۔
فوجی ردِعمل
محکمہ دفاع اور سیکیورٹی ذرائع نے ابتدائی طور پر بتایا کہ کرم سیکٹر میں افغان طالبان نے مبینہ طور پر کسی پیشگی اشتعال یا سیال کارروائی کے بغیر فائرنگ شروع کی، جس پر پاک فوج نے نہ صرف دفاعی فائر کیا بلکہ دشمن کے ٹھکانوں کو براہِ راست نشانہ بنا کر انہیں شدید نقصان پہنچایا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق تباہ شدہ پوسٹوں میں کچھ ایسے ٹھیکانے بھی شامل تھے جہاں سے مبینہ طور پر بار بار سرحد پار کر کے حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے حوالے سے بتایا گیا کہ اسپاک افغان سرحد پر شدید جھڑپ میں طالبان متعدد لاشیں پوسٹوں پر چھوڑ بھاگ گئے، جب کہ پاک فوج نے اسی آپریشن کے دوران ایک دشمن ٹینک کو بھی تباہ کر دیا۔ فورسز کا کہنا ہے کہ ان کی جوابی کارروائی میں عین نشانے بازی کے نتیجے میں حریف کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچا ہے۔
گزشتہ واقعات اور پیش منظر
یہ واقعہ اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے جو 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب پاک افغان سرحد پر شدید جھڑپ شروع ہوئی تھی، جب بھی پاک افغان سرحد پر افغان طالبان اور بعض مبینہ بیرونی سرپرستی یافتہ گروپس کی جانب سے حملے ریکارڈ ہوئے تھے۔ اُس پیشے میں پاک فوج نے رپورٹ کے مطابق دشمن کے کئی ٹھکانے اور چوکیوں کو تباہ کیا تھا اور ان کارروائیوں میں 200 سے زائد عسکریت پسند ہلاک ہونے کے دعوے بھی سامنے آئے تھے۔ تاہم ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے آزادانہ تصدیق ممکن نہیں رہی۔
پاک افغان سرحد پر شدید جھڑپوں میں خود ملکی افواج کے بھی جانی نقصان ہوئے؛ آئی ایس پی آر نے سابقہ جھڑپوں میں پاک افواج کے 23 شہداء اور متعدد زخمیوں کی تصدیق بھی کی تھی۔ یہی مجموعی پس منظر اس نِت نئے واقعے کو سنگین بناتا ہے اور سرحدی کشیدگی میں اضافے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اسلام آباد — کابل تعلقات اور الزام تراشی
پاکستانی قیادت نے کئی مرتبہ کابل سے یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ وفاقی وزارتِ خارجہ اور دفاعی حلقوں کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ افغان حکام اپنی زمینی حدود پر قابو پائیں اور عسکریت پسندوں کو پناہ گاہ فراہم کرنے سے باز رہیں۔ دوسری جانب کابل حکومت بارہا ان الزامات کی تردید کرتی آئی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوتی۔
اس دوران عالمی شراکت داران کی جانب سے سفارتی مداخلت بھی نوٹ کی گئی — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین دونوں نے پاک افغان کشیدگی کم کرنے کی پیش کش کی تھی، اور علاقائی صورتِ حال پر روک لگانے کی تجویز دی گئی۔ ساتھ ہی پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو ‘کشیدہ’ قرار دیا تھا اور کہا کہ تبادلۂ خیال کے باوجود فی الحال براہِ راست تعلقات و مذاکرات کی راہ مکمل طور پر کلیئر نہیں ہیں۔
پاکستانی قیادت کا موقف
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے قومی سطح پر واضح طور پر کہا ہے کہ شہداء نے اپنے خون سے ایک صف بندی کھینچی ہے اور اب وقت آ چکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ٹھوس فیصلے کیے جائیں۔ کابینہ کے اجلاس میں ان کی گفتگو میں اس عزم کی جھلک ملی کہ سرحدی حملوں کے جواب میں پاکستان اپنے دفاع کے اقدامات میں مزید فیصلہ کن ہوگا۔ وزیرِ اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ جو ملک دہشت گردوں کو پناہ دے وہ اپنے رویّے کا ذمہ دار ہوگا۔
مزید برآں وفاقی اور صوبائی سیاسی قیادت نے بھی حفاظتِ وطن کے حق میں سخت موقف اختیار کیا ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھنے میں حکومتی و سیکیورٹی اداروں کا ساتھ دیں۔
انسانی ضروریات اور سرحدی آبادی کا المیہ
ایسے بار بار پاک افغان سرحد پر شدید جھڑپوں کا سب سے براہِ راست اثر سرحدی آبادی پر پڑتا ہے۔ کرم، شمالی وزیرستان اور دیگر سرحدی اضلاع کی عام عوام طویل عرصے سے جھولتی سکیورٹی، نقلِ مکانی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ جھڑپیں بڑھی تو سرحد کے گائوں و قصبے خالی کروانے پڑتے ہیں، زرعی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں، اور بنیادی سہولیات محدود رہتی ہیں۔ اگرچہ فوجی آپریشن کا ہدف عسکریت پسند ٹھکانوں کا خاتمہ ہوتا ہے، مگر سول آبادی کی حفاظت اور فضای رہنمائی کے لیے انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی میں انسانی امداد اور بحالی پروگراموں پر خاص توجہ ناگزیر ہے۔
کراچی میں غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف بڑا آپریشن، متعدد گرفتار
پاک افغان سرحد پر شدید جھڑپ علاقائی مضمرات اور سفارتی منظرنامہ
پاک افغان سرحد پر شدید جھڑپوں اور کشیدگی کا پھیلاؤ محض دو ملکوں تک محدود نہیں رہے گا؛ یہ خطے میں بڑے جیوپولیٹیکل توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔ چین، امریکا، اور خطے کے دوسرے اہم فریقین کے اثرات اس تنازع کو علاقائی اور عالمی سطح پر پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ اگرچہ کچھ عالمی قوّتیں مصالحت کی کوششیں کر رہی ہیں، مگر حقیقی وقوف اس بات پر ٹکا ہے کہ کابل سرکار کتنی موثر طریقے سے اندرونی عسکری گروہوں کو کنٹرول کر پاتی ہے، اور آیا پشتون خطے میں سیاسی اور معاشی اصلاحات کے ذریعے دیرپا امن ممکن ہو پاتا ہے یا نہیں۔

ممکنہ آئندہ اقدامات اور اُن کے نتائج
حالیہ پیش رفت کی روشنی میں چند ممکنہ رجحانات سامنے آ سکتے ہیں:
فوجی کارروائیوں کی تواتر میں اضافہ: اگر سرحدی حملے جاری رہے تو پاک فوج مزید پیشگی یا جوابی آپریشن کر سکتی ہے تاکہ خلاف کار عناصر کی کمر توڑی جا سکے۔ ایسے اقدامات فوری طور پر عسکری قوت میں کمی لا سکتے ہیں مگر طویل مدتی حل کے لیے ممکنہ سیاسی اور معاشی اقدامات ضروری ہیں۔
سفارتی دباؤ: پاکستان بین الاقوامی فورمز اور اقوامِ عالم کے ذریعے کابل حکومت اور متعلقہ فریقین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا تاکہ سرحدی حملوں کو روکا جا سکے۔ عالمی ثالثی یا نگرانی کے ذریعے صورتحال کو قابو میں رکھنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
علاقائی مداخلت اور ثالثی کوششیں: چین، امریکا یا دیگر خطی ملک ثالثی کے لیے مداخلت کر سکتے ہیں؛ مگر ذہن میں رہے کہ ہر فریق کے اپنے جیوپولیٹکل مفادات ہوتے ہیں جس سے ثالثی کا عمل پیچیدہ ہو سکتا ہے۔
انسانی ہمدردی اور داخلی بحالی: متاثرین کی بحالی، پناہ گزینوں کے لیے معقول سہولیات، اور سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی حکومت کے سامنے بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے لیے مالی وسائل اور بین الاقوامی معاونت درکار ہو سکتی ہے۔

کیا پاکستان کے پاس متبادل راستہ ہے؟(pak afghan war)
فی الحال یہ واضح نہیں کہ پاک افغان سرحد پر شدید جھڑپوں اور سرحدی کشیدگی کتنی دیر برقرار رہے گی۔ ایک جانب تو فوجی کارروائی ضروری ثابت ہوئی ہے تاکہ فوری خطرے کا جواب دیا جا سکے، مگر طویل المدتی امن حاصل کرنے کے لیے کابل حکومت کے ساتھ بامعنی مذاکرات، علاقائی تعاون اور مقامی برادریوں کو بااختیار بنانا لازمی ہے۔ اگر بین الاقوامی برادری اور علاقائی شراکت دار تعمیری انداز میں شامل ہوں تو نہ صرف اس مخصوص پاک افغان سرحد پر شدید جھڑپ کو محدود کیا جا سکتا ہے بلکہ باہمی بھروسے اور سرحدی تحفظ کے لیے ایک مستقل فریم ورک بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔
فی الوقت صورتحال نازک ہے اورپاک افغان سرحد پر شدید جھڑپ کا سرحدی علاقوں کی عوام پر اثرات براہِ راست ظاہر ہو رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں شواہد اور دونوں اطراف کے بیانات یہ طے کریں گے کہ یہ کشیدگی خفیف ہوتی ہے یا کسی بڑے تصادم کی طرف بڑھتی ہے۔ ملکی قیادت، عسکری و سفارتی ادارے اور بین الاقوامی شراکت دار اس تناظر میں سب کی توجہ اور ذمہ داری بڑھا دیں تاکہ خطے میں استحکام اور امن کی بحالی ممکن بن سکے۔
Afghan Taliban and Fitna al-Khawarij opened fire without provocation in Kurram,: security source
Pakistan Army gave a strong response,: security sources.
Taliban posts suffered heavy damage due to Pak Army firing,: security sources
Fire broke out at Afghan Taliban posts pic.twitter.com/7olfw7f7aK
— Waseem Abbasi (@Wabbasi007) October 14, 2025
Comments 2