پاکستان میں تمباکو نوشی تشویشناک حد تک بڑھ گئی — فوری پابندیوں، گرافک وارننگز اور موثر قانون سازی کی ضرورت
پاکستان میں تمباکو نوشی ایک سنگین عوامی مسئلہ بن چکی ہے جو نہ صرف صحت بلکہ معیشت اور معاشرتی ڈھانچے پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کے دو روزہ مشاورتی اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان میں تمباکو نوشی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
تمباکو نوشی کی بڑھتی شرح — ایک قومی بحران
اجلاس میں شریک سابق نگران وفاقی وزیر اور صدرِ پاکستان کے ترجمان مرتضیٰ سولنگی نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں تمباکو نوشی کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں تقریباً 2 کروڑ 70 لاکھ افراد تمباکو استعمال کر رہے ہیں، جبکہ ہر سال ایک لاکھ 66 ہزار سے زائد افراد تمباکو سے وابستہ بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار نہ صرف صحت کے شعبے میں خطرے کی گھنٹی ہیں بلکہ معیشت پر بوجھ اور قومی پیداواری صلاحیت کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ — خطرناک حقائق
مشاورتی اجلاس میں پیش کی گئی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی "ورلڈ ٹوبیکو ایپیڈمک رپورٹ 2025” میں واضح کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال تمباکو نوشی کے باعث 80 لاکھ سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔
یہ تعداد ایچ آئی وی، ملیریا اور تپِ دق سے ہونے والی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان میں تمباکو نوشی کے بڑھتے رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں یہ مسئلہ وبا کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
تمباکو کی تشہیر پر پابندی کی ضرورت
مرتضیٰ سولنگی نے زور دیا کہ پاکستان میں تمباکو نوشی کے خاتمے کے لیے تمباکو مصنوعات کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اشتہارات، اسپانسرشپ اور رنگین پیکنگ کے ذریعے نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گرافک ہیلتھ وارننگز کے سائز میں اضافہ کیا جائے تاکہ تمباکو نوشی کے مضر اثرات واضح طور پر عوام تک پہنچ سکیں۔
نوجوان نسل — تمباکو کا نیا ہدف
سابق رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے کہا کہ سب سے بڑا خطرہ نوجوان نسل کو لاحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ دلکش پیکنگ، موسیقی کے ایونٹس کی اسپانسرشپ اور سوشل میڈیا پر اشتہارات پاکستان میں تمباکو نوشی کو پرکشش انداز میں پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے فوری طور پر قوانین پر عملدرآمد یقینی نہ بنایا تو اگلی دہائی میں تمباکو کے عادی نوجوانوں کی تعداد دگنی ہو سکتی ہے۔
تمباکو نوشی اور معیشت پر اثرات
پاکستان میں تمباکو نوشی کے اثرات صرف صحت تک محدود نہیں بلکہ اس سے معیشت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان ہر سال تمباکو سے جڑی بیماریوں، صحت کے اخراجات اور کام کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان برداشت کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تمباکو نوشی پر مؤثر کنٹرول کر لیا جائے تو قومی بجٹ میں صحت کے لیے مختص وسائل کو زیادہ مؤثر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سپارک کی رپورٹ — قانون سازی میں خلا
سپارک کے پروگرام منیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ پاکستان نے تمباکو کنٹرول کے حوالے سے کچھ پیش رفت ضرور کی ہے،
لیکن پاکستان میں تمباکو نوشی کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد اب بھی ناکافی ہے۔
ان کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ ممالک جہاں تمباکو کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کی گئی،
وہاں خاص طور پر نوجوانوں میں تمباکو کے استعمال میں 30 سے 40 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
گرافک ہیلتھ وارننگز — ایک مؤثر ہتھیار
ڈاکٹر خلیل احمد کے مطابق گرافک ہیلتھ وارننگز تمباکو نوشی روکنے کا ایک ثابت شدہ طریقہ ہیں۔
تصاویر اور سخت پیغامات تمباکو نوشی کرنے والوں کو خوفزدہ کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں تمباکو نوشی کے آغاز کو روکنے کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں آگاہی مہمات بھی ناگزیر ہیں۔
میڈیا کا کردار
معروف صحافی فیصل زاہد ملک نے کہا کہ میڈیا کو اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھانی چاہیے اور تجارتی دباؤ سے آزاد ہو کر عوامی مفاد کے لیے مہمات چلانی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ جنگ ہم جیت سکتے ہیں، مگر صرف اس صورت میں جب میڈیا، سول سوسائٹی، اساتذہ، والدین اور حکومت ایک ہی سمت میں کام کریں۔‘‘
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان میں تمباکو نوشی کے خلاف میڈیا کمپینز مسلسل اور مؤثر ہونی چاہئیں تاکہ عوامی رویوں میں تبدیلی لائی جا سکے۔
تمباکو نوشی سے متعلق پالیسی میں بہتری کی تجاویز
اجلاس کے شرکاء نے پاکستان میں تمباکو نوشی کے کنٹرول کے لیے درج ذیل اقدامات تجویز کیے:
تمباکو کی تمام اقسام (سگریٹ، شیشہ، ویپ) پر یکساں قوانین لاگو کیے جائیں۔
تمباکو مصنوعات پر ٹیکسز میں اضافہ کیا جائے۔
نوجوانوں میں آگاہی بڑھانے کے لیے اسکولوں میں خصوصی نصاب شامل کیا جائے۔
گرافک وارننگز کے سائز کو 85 فیصد تک بڑھایا جائے۔
غیر قانونی تمباکو مصنوعات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
حکومت کا بڑا قدم: ای سگریٹ کی فروخت پر پابندی نافذ
پاکستان میں تمباکو نوشی اب محض ایک صحت کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک سماجی اور معاشی چیلنج بن چکا ہے۔
اگر حکومت، میڈیا اور سول سوسائٹی متحد ہو جائیں تو یہ ممکن ہے کہ پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو جائے جہاں تمباکو نوشی میں نمایاں کمی آئی ہے۔