لندن میں چوری شدہ فونز کا انکشاف: 80 ہزار سے زائد موبائل فونز کی وارداتیں
لندن پولیس نے حال ہی میں ایک حیران کن انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال شہر میں چوری شدہ فونز کی تعداد 80 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ پولیس کے مطابق یہ وارداتیں محض چھوٹے چوروں تک محدود نہیں رہیں بلکہ ایک منظم اور صنعتی نیٹ ورک کے تحت بین الاقوامی سطح پر ہو رہی ہیں۔ اس رپورٹ نے نہ صرف لندن بلکہ عالمی سطح پر موبائل سیکٹر میں حفاظت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
چوری شدہ فونز کا عالمی نیٹ ورک
میٹروپولیٹن پولیس کی تحقیقات کے مطابق، اب چوری شدہ فونز کی وارداتیں صرف گلی محلوں یا عام چھیننے کی کارروائی تک محدود نہیں رہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کے تحت منظم ہو چکی ہیں، جس میں متعدد درجوں کے چور، خریدار اور ایکسپورٹر شامل ہیں۔ پولیس نے گزشتہ ماہ شمالی لندن میں چھاپوں کے دوران تقریباً 2 ہزار چوری شدہ فونز اور 7 کروڑ 49 لاکھ روپے نقدی برآمد کیے۔ یہ رقم اور فونز ایسے دکانداروں اور درمیانی سطح کے خریداروں کے قبضے سے برآمد ہوئے جو ان چوری شدہ فونز کو ہانگ کانگ، چین اور الجزائر جیسی منڈیوں میں بھیجنے کا کام کرتے ہیں۔
کیس کی تفصیلات
سینئر ڈیٹیکٹو مارک گوئن کے مطابق، یہ جرائم انفرادی نہیں بلکہ صنعتی پیمانے پر منظم ہیں۔ ایک متاثرہ خاتون نے اپنے آئی فون کی لوکیشن ایپ کے ذریعے ہیتھرو ایئرپورٹ کے قریب ایک گودام تک پہنچنے کا سراغ لگایا، جس کے بعد وہاں سے ہانگ کانگ بھیجے جانے والے کنٹینرز میں 1 ہزار چوری شدہ فونز برآمد کیے گئے۔
یہ انکشاف ظاہر کرتا ہے کہ آج کے چوری کے واقعات صرف فوری فائدے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ایک مکمل تجارتی ماڈل کے تحت منظم کیے جاتے ہیں، جس میں نچلی سطح پر عام چور، درمیانی سطح پر دکاندار اور اعلیٰ سطح پر ایکسپورٹر شامل ہیں۔
چوری شدہ فونز کی مارکیٹ
پولیس کے مطابق، چوری شدہ فونز کی غیر ملکی مارکیٹ میں قیمت 5 ہزار ڈالر تک جا سکتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جرائم نہ صرف لندن بلکہ عالمی سطح پر ایک منافع بخش اور خطرناک کاروبار بن چکے ہیں۔ چور اور نیٹ ورک کے ارکان نے مختلف ممالک میں یہ فونز بیچ کر لاکھوں ڈالر کما لیے ہیں۔
چوری شدہ فونز کی تعداد میں اضافہ
اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں لندن میں 64 ہزار فون چوری ہوئے، لیکن 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر 80 ہزار تک پہنچ گئی۔ مارچ 2024 سے فروری 2025 کے دوران مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد چوری شدہ فونز کے کیسز رپورٹ ہوئے، مگر صرف 495 افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی، یعنی ہر 200 کیسز میں صرف ایک کیس میں کارروائی ممکن ہوئی۔
یہ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ چوری شدہ فونز کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج بن چکی ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششیں
لندن پولیس نے چھاپوں اور تحقیقات کے دوران متعدد بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا ہے، جس میں نہ صرف نچلی سطح کے چور شامل ہیں بلکہ درمیانی سطح کے دکاندار اور اعلیٰ سطح کے ایکسپورٹرز بھی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چوری شدہ فونز کی مارکیٹ پر قابو پانے کے لیے مزید سخت اقدامات ضروری ہیں، جس میں گوداموں کی چھان بین، ایئرپورٹ پر نگرانی اور غیر قانونی برآمدات کو روکنا شامل ہے۔
شہریوں کے لیے مشورے
ماہرین کے مطابق، شہریوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فونز کی حفاظت کے لیے اضافی اقدامات کریں۔ اپنے موبائل فون پر لوکیشن ٹریکنگ، مضبوط پاس ورڈ اور ریگولر بیک اپ کے ذریعے وہ اپنے فونز کو چوری شدہ فونز کے خطرے سے بچا سکتے ہیں۔
ساتھ ہی، اگر کوئی فون چوری ہو جائے تو فوری طور پر پولیس رپورٹ درج کروائیں اور IMEI نمبر کے ذریعے اس کی لوکیشن ٹریس کرنے کی کوشش کریں۔ شہریوں کی احتیاطی تدابیر ہی اس جرم کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
کراچی میں موبائل فونز کی ریکوری – چوری شدہ فون مالکان کو واپس ملنے کا امکان
لندن میں چوری شدہ فونز کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکی ہیں، جو نہ صرف شہریوں بلکہ عالمی منڈی پر بھی اثر ڈال رہی ہیں۔ قانونی ادارے اور پولیس سخت اقدامات کر رہے ہیں، مگر شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے موبائل فونز کو محفوظ رکھیں۔