پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلقات احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کا بلاول بھٹو سے مکالمہ
اسلام آباد :— وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہماری اتحادی جماعت ہے اور ہم ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت قومی مفاد میں تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنا چاہتی ہے تاکہ ملکی استحکام، معاشی بہتری اور سیاسی برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جا سکے۔
ووزیراعظم شہباز شریف سے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت ایک اعلیٰ سطحی وفد نے وزیر اعظم ہاؤس میں اہم ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال، حکومتی پالیسیوں، وفاقی و صوبائی تعلقات، غزہ امن معاہدے پر پاکستان کے کردار، اور آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
غزہ امن معاہدے میں پاکستان کا کردار — پیپلز پارٹی کا خراج تحسین
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق، پیپلز پارٹی کے وفد نے وزیراعظم شہباز شریف کو غزہ امن معاہدے کے لیے ان کی کوششوں پر خراج تحسین پیش کیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر اعظم کی سفارتی کاوشوں سے نہ صرف پاکستان کا تشخص بہتر ہوا بلکہ امت مسلمہ کے درمیان پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔
اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وفد کو حکومت کی موجودہ پالیسیوں، معاشی اصلاحات، توانائی بحران کے حل، اور صوبوں کے درمیان تعاون کے فروغ سے متعلق اقدامات پر بریفنگ دی۔
وفود میں شامل اہم رہنما
پیپلز پارٹی کے وفد میں سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، سینیٹر شیری رحمان، نیئر بخاری، ندیم افضل چن اور سید علی قاسم گیلانی شامل تھے۔
جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحٰق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ، اور اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا کہ سیاسی اختلافات کو عوامی خدمت کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔
صدر زرداری کا کردار اور اختلافات کا پس منظر
اس ملاقات سے قبل صدر مملکت آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو کراچی طلب کیا تھا اور انہیں سندھ اور پنجاب حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی ہدایت دی تھی۔
9 اکتوبر کو نوابشاہ میں صدر زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں دونوں جماعتوں نے مخالفانہ بیانات کے خاتمے اور سیاسی ماحول میں بہتری لانے پر اتفاق کیا تھا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق، صدر زرداری کا یہ اقدام سیاسی درجہ حرارت کم کرنے اور حکومتی اتحاد کو مضبوط بنانے کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے۔
صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ملاقات، ملکی و علاقائی امور پر تفصیلی مشاورت
سیاسی کشیدگی کا آغاز — ایک مختصر جائزہ
دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان اختلافات اس وقت شدت اختیار کر گئے تھے جب چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بین الاقوامی سطح پر اپیل کی اور متاثرین کی بحالی کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے استعمال پر زور دیا۔
اس معاملے پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ عوامی خدمت کے لیے انہیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں، اور ملک کی ترقی کے لیے صرف امدادی پروگراموں پر انحصار ختم کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ حکومت اب بھیک مانگنے کے بجائے خود کفالت کی راہ پر گامزن ہے، جس کے بعد دونوں جماعتوں کے بیانات نے سیاسی ماحول کو مزید گرم کر دیا۔
پارلیمنٹ میں کشیدگی اور پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ
30 ستمبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے بیان کے خلاف پیپلز پارٹی کے اراکین نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا تھا کہ:
“ہمیں وزارتیں یا عہدے نہیں چاہئیں، کم از کم عزت تو دے سکتے ہیں۔ اگر یہی رویہ رہا تو ہمیں حکومتی بینچز پر بیٹھنا مشکل ہو جائے گا۔”
سیاسی ماہرین کے مطابق، یہ بیان واضح کرتا ہے کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان اعتماد کی فضا کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کا استحکام قائم رہے۔

اتحاد برقرار رکھنے کی کوششیں — شہباز شریف کا مؤقف
وزیراعظم شہباز شریف نے ملاقات میں کہا کہ:
“ہم سیاسی اختلافات کے باوجود جمہوری اقدار کے قائل ہیں۔ پیپلز پارٹی ہمارے لیے قابلِ احترام اتحادی ہے، اور ہم انہیں حکومت کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔”
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام سیاسی قوتوں کو ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے ایک صفحے پر آنا چاہیے تاکہ معیشت، امن، اور بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔
سیاسی تجزیہ
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ ملاقات اس وقت اہمیت اختیار کر گئی ہے جب ملک اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ غزہ امن معاہدے میں پاکستان کا فعال کردار، پاک-افغان سرحدی صورتحال، اور معاشی دباؤ جیسے مسائل کے حل کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔
اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہم آہنگی برقرار رہتی ہے تو یہ نہ صرف حکومتی استحکام بلکہ مستقبل کی پالیسیوں میں بھی تسلسل پیدا کرے گی۔
مشاہدین کے مطابق، وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات(shehbaz sharif meets bilawal bhutto) نے بظاہر سیاسی تناؤ کو کم کرنے کی فضا پیدا کی ہے۔ تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ مصالحتی کوششیں عملی سطح پر بھی دیرپا سیاسی ہم آہنگی میں تبدیل ہو پاتی ہیں یا نہیں۔
سیاسی استحکام کے اس مرحلے پر حکومت کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اتحادی جماعتوں کے خدشات کو سنجیدگی سے سنے، ان کے مطالبات کا جائزہ لے، اور باہمی احترام و مشاورت کے اصول پر مبنی پالیسیوں کو جاری رکھے۔
A delegation led by Chairman Pakistan People's Party Bilawal Bhutto Zardari meets Prime Minister Muhammad Shehbaz Sharif. pic.twitter.com/17SyP7Efly
— Government of Pakistan (@GovtofPakistan) October 16, 2025