وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ آئندہ ہفتے متوقع — دفاعی، معاشی اور سفارتی تعلقات میں نئے باب کا امکان
اسلام آباد (رئیس الاخبار) : — وزیراعظم پاکستان شہباز شریف آئندہ ہفتے ایک انتہائی اہم اور تاریخی دورے پر سعودی عرب جائیں گے، جہاں وہ تین روزہ سرکاری قیام کے دوران سعودی فرمانروا، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ سعودی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس دورے میں پاکستان کی سول و عسکری قیادت بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہوگی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق شہبازشریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ نہ صرف دفاعی تعلقات کے استحکام بلکہ معاشی تعاون، توانائی شراکت داری اور علاقائی امن و سلامتی کے حوالے سے بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اپنے قیام کے دوران فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو (FII) سے بھی خطاب کریں گے — یہ وہ عالمی سرمایہ کاری فورم ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں نئی اقتصادی سمتوں کے تعین میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔
اعلیٰ سطحی وفد کی شمولیت — سول و عسکری قیادت ایک صفحے پر
شہبازشریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ میں وزیراعظم کے ہمراہ پاکستان کی سربراہی عسکری قیادت بھی شریک ہوگی، جن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی، اور وزیرِ دفاع سمیت کئی وفاقی وزرا شامل ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق وفد کے ایجنڈے میں دفاعی تعاون کے فریم ورک پر مزید پیش رفت، اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کے منصوبے، اور نئے تجارتی معاہدوں پر گفتگو شامل ہوگی۔
شہبازشریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرقِ وسطیٰ کی مجموعی سیاسی فضا غیر معمولی حد تک حساس ہو چکی ہے — اسرائیل و ایران کشیدگی، قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عرب دنیا کی اجتماعی سیکیورٹی پالیسی میں تبدیلی، اور عالمی سطح پر نئے اتحادوں کے ابھار نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو مزید اہم بنا دیا ہے۔

دفاعی معاہدہ: "ایک پر حملہ، دونوں پر حملہ تصور ہوگا”
یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ 17 ستمبر 2025 کو بھی سعودی عرب کا غیر معمولی دورہ کیا تھا، جہاں ان کی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے طویل ملاقات ہوئی تھی۔
اسی ملاقات کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک دوطرفہ تذویراتی دفاعی معاہدہ (Bilateral Strategic Defence Pact) پر دستخط ہوئے، جس کے تحت طے پایا کہ:
کسی ایک ملک پر بیرونی حملہ، دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہ دفاعی شق پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں تاریخی موڑ قرار دی جا رہی ہے، جس سے نہ صرف خطے میں طاقت کا توازن بدلے گا بلکہ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی اتحادوں پر بھی اثر پڑے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاہدہ دراصل اجتماعی سلامتی کے عرب رجحان کی توسیع ہے، جو اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں عرب دنیا میں پیدا ہورہی ہے۔
عرب سربراہی اجلاس اور اسرائیلی جارحیت کا تناظر
یہ دفاعی معاہدہ اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے کے بعد عرب دنیا میں اجتماعی سلامتی کے نظریے نے جنم لیا۔
گزشتہ ماہ ہونے والے عرب سربراہی اجلاس میں مصر، سعودی عرب، اردن، قطر، اور متحدہ عرب امارات نے اجتماعی دفاع کے اصول پر متفق ہوکر واضح کیا تھا کہ کسی عرب ملک پر حملہ تمام عرب ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہی پس منظر پاکستان اور سعودی عرب کے اس معاہدے کا محرک سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ پاکستان کو عرب دنیا کے قابلِ اعتماد فوجی اتحادی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
پاکستان پہلے ہی اسلامی فوجی اتحاد (IMCTC) کا ایک سرگرم رکن ہے، جس کے سربراہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں۔
علاقائی کشیدگی — بھارت، ایران اور اسرائیل
اس معاہدے کو جنوبی ایشیائی کشیدگی کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔
مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیالکوٹ سیکٹر میں مختصر مگر شدید سرحدی جھڑپ ہوئی تھی، جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں دوبارہ سرد مہری بڑھ گئی۔
دوسری طرف، جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ محدود جنگ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی سمت بدل دی — اور انہی حالات نے پاکستان اور سعودی عرب کو قریب تر کر دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ممالک کی قربت نہ صرف مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی بلکہ اسٹریٹجک دفاعی مفادات پر مبنی ہے۔ سعودی عرب اپنی سرحدی سلامتی کے لیے پاکستان کی فوجی صلاحیتوں پر اعتماد رکھتا ہے، جبکہ پاکستان سعودی سرمایہ کاری اور تیل کے لیے اہم پارٹنر بن چکا ہے۔
اقتصادی تعاون — گوادر تا نیوم رابطہ
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ میں ایک اہم نکتہ معاشی تعلقات کا فروغ ہوگا۔
اس دوران دونوں ممالک کے درمیان گوادر–نیوم اکنامک کوریڈور کے قیام پر بھی بات چیت متوقع ہے، جس کے تحت گوادر پورٹ سے سعودی شہر نیوم تک توانائی، تجارت، اور لاجسٹکس کے منصوبے متعارف کرائے جائیں گے۔
یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کے لیے سرمایہ کاری کا بڑا موقع ہوگا بلکہ خطے میں چین–پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا دائرہ خلیج تک بڑھانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹیو (FII) میں خطاب
وزیراعظم شہباز شریف فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹیو کے فورم سے خطاب کریں گے — جو سعودی وژن 2030 کا ایک مرکزی حصہ ہے۔
اس فورم میں دنیا بھر کے سرمایہ کار، وزرائے خزانہ، اور اقتصادی ماہرین شریک ہوں گے۔ وزیراعظم کا خطاب پاکستان کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اس موقع پر سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) کے ساتھ توانائی، انفراسٹرکچر، اور مائننگ کے منصوبوں پر بات چیت کرے گا۔
فوجی تعاون — تربیت، ٹیکنالوجی اور مشترکہ مشقیں
عسکری ماہرین کے مطابق اس دورے کے دوران دفاعی صنعت، تربیت، اور مشترکہ فوجی مشقوں کے نئے معاہدے بھی طے پانے کی توقع ہے۔
پاکستان پہلے ہی سعودی افواج کی تربیت اور عسکری مشاورت میں کردار ادا کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، سعودی عرب پاکستانی دفاعی پیداوار کے شعبے — خاص طور پر ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا (HIT) اور پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس (PAC) — میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ایک نیا جغرافیائی اتحاد تشکیل پا رہا ہے
بین الاقوامی امور کے ماہرین شہبازشریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک تبدیلی کے اشارے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سفارتی مبصرین کے مطابق، پاکستان اب روایتی امداد پر انحصار کم اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ ماڈل کی طرف بڑھ رہا ہے، جس میں باہمی مفادات پر مبنی تعلقات ترجیحی حیثیت رکھتے ہیں۔
شہبازشریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت ایک پیج پر نظر آ رہی ہے، جس سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور اتحادیوں کو استحکام کا پیغام ملتا ہے۔
عوامی سطح پر توقعات (shahbaz sharif visit to saudi arabia)
پاکستانی عوام اور کاروباری طبقہ امید ظاہر کر رہا ہے کہ اس دورے سے تیل کی رعایتی فراہمی، سرمایہ کاری میں اضافہ، اور ترسیلاتِ زر کے نئے راستے کھلیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب پاکستان میں طویل مدتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو یہ پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔
آئندہ ہفتے وزیراعظم شہبازشریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ محض ایک رسمی سفارتی ملاقات نہیں بلکہ ایک تزویراتی سنگِ میل ہے۔
شہبازشریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ پاکستان کے دفاعی اعتماد، سفارتی وزن، اور معاشی امکانات کو نئی جہت دے سکتا ہے۔
اگرشہبازشریف کا سعودی عرب کا اہم دورہ کامیاب رہا تو پاکستان سعودی تعلقات ایک نئے اسٹریٹجک اتحاد میں ڈھل سکتے ہیں، جو آنے والے برسوں میں مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے جغرافیائی منظرنامے کو ازسرِ نو ترتیب دے گا۔
On his arrival at the royal palace, Prime Minister Shehbaz Sharif was received by Crown Prince Mohammed bin Salman ahead of their meeting. He was presented guard of honour. It is important to mention that the Prime Minister is on a three-day visit to Saudi Arabia. pic.twitter.com/cIH2ZIhgeD
— Prime Minister's Office (@PakPMO) April 29, 2022