ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت پر روسی تیل خریدنے سے متعلق دباؤ —روسی تیل کی خریداری کے معاملے پر ٹرمپ کی بھارت کو ایک بار پھر دھمکی، مودی سے مبینہ گفتگو نے سفارتی ہلچل مچا دی
واشنگٹن (رائیس الاخبار) — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ بھارت آئندہ روس سے تیل نہیں خریدے گا۔ تاہم بھارتی وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر اس بیان کی تردید کر دی ہے، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر ایک نئی کشیدگی جنم لے چکی ہے۔
ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا،
“میں نے بھارت کے وزیراعظم مودی سے بات کی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ روسی تیل کے معاملے میں اب ایسا نہیں کریں گے۔”
ان کے اس بیان نے واشنگٹن اور نئی دہلی کے سفارتی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ صحافیوں نے جب صدر ٹرمپ سے سوال کیا کہ "اگر بھارتی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تو پھر حقیقت کیا ہے؟” تو ٹرمپ نے برجستہ جواب دیا:
“مجھے نہیں معلوم، اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، لیکن پھر وہ بھاری محصولات ادا کرتے رہیں گے — اور وہ ایسا بالکل نہیں چاہیں گے۔”
بھارت کی فوری تردید — کوئی بات چیت نہیں ہوئی
امریکی صدر کے بیان کے چند ہی گھنٹے بعد بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندیر جیسوال نے پریس کانفرنس میں کہا کہ
“ہم واضح طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وزیراعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان حالیہ دنوں میں کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔”
ترجمان نے مزید کہا کہ بھارت کی توانائی پالیسی خود مختار ہے اور نئی دہلی اپنے قومی مفاد کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ “روس ہمارا طویل المدتی توانائی شراکت دار ہے، اور ہم اپنے شہریوں کے لیے سستا اور قابلِ اعتماد تیل حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔”
روسی تیل پر امریکی پابندیاں اور بھارت کا مؤقف
امریکا نے روس پر یوکرین جنگ کے بعد سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں اور اپنے اتحادیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ روسی تیل اور گیس کی درآمدات روک دیں تاکہ ماسکو کو مالی طور پر کمزور کیا جا سکے۔
تاہم بھارت، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے، نے اپنی معیشت کے تقاضوں کے پیشِ نظر روس سے تیل خریدنا جاری رکھا۔ روس بھارت کو رعایتی نرخوں پر خام تیل فراہم کر رہا تھا، جس سے نئی دہلی کو توانائی کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی حاصل ہوئی۔
بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر بارہا یہ مؤقف دہرا چکے ہیں کہ
“ہم اپنی توانائی کی ضروریات کو سیاسی دباؤ کے تحت نہیں چلا سکتے۔ جہاں سے سستا تیل ملے گا، ہم وہیں سے خریدیں گے۔”
یہی مؤقف امریکا کو طویل عرصے سے ناگوار گزر رہا ہے۔
امریکی دباؤ میں اضافہ — “بھاری ٹیرف” کی دھمکی
ٹرمپ کی بھارت کو ایک بار پھر دھمکی اور تازہ بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اب بھارت پر تجارتی دباؤ بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ “اگر بھارت روسی تیل خریدنا بند نہیں کرتا تو اسے امریکی منڈی تک رسائی کے لیے بھاری محصولات ادا کرنا ہوں گے،” ٹرمپ نے کہا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کی بھارت کو ایک بار پھر دھمکی نہ صرف بھارت کی خودمختار خارجہ پالیسی کے لیے چیلنج ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی معاشی شراکت داری پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کا ردعمل — “ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے لیے تنازعہ کھڑا کر رہے ہیں”
بھارتی میڈیا نے صدر ٹرمپ کی بھارت کو ایک بار پھر دھمکی کو امریکی داخلی سیاست سے جوڑا ہے۔ کئی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ دراصل اپنی انتخابی مہم میں روس مخالف بیانیہ مضبوط کرنے کے لیے بھارت کو ہدف بنا رہے ہیں۔
“ٹائمز آف انڈیا” نے لکھا کہ “ٹرمپ کے بیانات اکثر غیر متوقع ہوتے ہیں، مگر ان کا مقصد ہمیشہ اندرونی سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔”
دوسری جانب، “انڈین ایکسپریس” نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ “ٹرمپ کا بیان بائیڈن انتظامیہ کے لیے بھی مشکلات کھڑی کر سکتا ہے، کیونکہ واشنگٹن دہلی کے ساتھ دفاعی اور تجارتی تعلقات مزید مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔”
ٹرمپ کی بھارت کو ایک بار پھر دھمکی، امریکی ماہرین کی رائے
امریکی خارجہ پالیسی کے ماہرین نے بھی اس تنازعے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ “کارنیگی اینڈوومنٹ” کے سینئر تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے “ایکس” پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
“ٹرمپ کے بیانات کو ہمیشہ الفاظ کی حد تک ہی لینا چاہیے۔ ان کے دورِ صدارت میں بھی کئی مواقع پر وہ ایسے دعوے کرتے رہے جو بعد میں غلط ثابت ہوئے۔”
ان کے مطابق موجودہ حالات میں بھارت کے ساتھ کسی “ٹیلی فونک گفتگو” کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں، اس لیے یہ بیان زیادہ تر سیاسی مقصد کے تحت دیا گیا لگتا ہے۔
روس کا ردعمل — “بھارت ہمارا قابلِ اعتماد پارٹنر ہے
روسی وزارتِ خارجہ نے ٹرمپ کی بھارت کو ایک بار پھر دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت روس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون جاری رکھے گا۔ ماسکو نے نئی دہلی کو “ایک قابلِ اعتماد اور دوست ملک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ
“ہم کسی تیسرے ملک کے دباؤ میں آ کر اپنی دوطرفہ توانائی شراکت داری محدود نہیں کریں گے۔”
روسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت روسی تیل کی درآمدات کا بڑا خریدار بن چکا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان لین دین زیادہ تر مقامی کرنسیوں میں کیا جا رہا ہے، جو امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔
ٹرمپ کی بھارت کو ایک بار پھر دھمکی امریکا-بھارت تعلقات پر ممکنہ اثرات
یہ تنازع ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکا اور بھارت دفاعی معاہدوں اور ٹیکنالوجی کے اشتراک پر تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔
واشنگٹن بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن روس سے بھارت کے قریبی تعلقات ہمیشہ امریکی پالیسی سازوں کے لیے تشویش کا باعث رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکی دباؤ میں اضافہ ہوا تو نئی دہلی کو “غیر جانب دارانہ توازن” برقرار رکھنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ بھارت پہلے ہی روس، امریکا، اور چین تینوں کے ساتھ بیک وقت تعلقات رکھنے کی پیچیدہ خارجہ حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔
توانائی کی جنگ اور جغرافیائی سیاست
یوکرین جنگ کے بعد عالمی توانائی منڈی میں طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے۔ روس، چین اور ایران جیسے ممالک “ڈالر کے متبادل مالیاتی نظام” کی بات کر رہے ہیں، جبکہ امریکا اپنے اتحادیوں پر دباؤ ڈال کر روس کو عالمی منڈی سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش میں ہے۔

ایسے حالات میں بھارت جیسے بڑے خریدار کا کردار نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ اگر بھارت امریکی دباؤ میں آ کر روسی تیل خریدنا بند کر دیتا ہے تو روس کے لیے معاشی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ لیکن اگر بھارت اپنی پالیسی پر قائم رہتا ہے، تو یہ واشنگٹن کے لیے ایک بڑی سفارتی شکست تصور کی جائے گی۔
دوست یا مفاد؟ (us india russia oil)
ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت کو ایک بار پھر دھمکی نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات دوستی پر مبنی ہیں یا مفادات پر۔ بھارت کے لیے توانائی کی قیمتیں اہم ہیں، جبکہ امریکا کے لیے روس کی کمزوری۔ دونوں کے بیچ یہ رسہ کشی مستقبل میں عالمی تیل منڈی اور بین الاقوامی سیاست دونوں پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔
فی الحال دونوں دارالحکومتوں — واشنگٹن اور نئی دہلی — میں خاموش سفارتی کوششیں جاری ہیں تاکہ اس “بیانیاتی طوفان” کو بڑے تنازع میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے۔ لیکن ماہرین متفق ہیں کہ اگر ٹرمپ اپنے مؤقف پر قائم رہے تو آنے والے دنوں میں امریکا-بھارت تعلقات ایک نئے امتحان سے گزر سکتے ہیں۔
🚨Trump threatens Modi AGAIN
“Modi told me that he won't buy oil from Russia & if he buys oil from Russia, he will keep paying heavy tariffs”
Will Modi G respond? pic.twitter.com/tu64yYzsb2
— The Protagonist (@_protagonist1) October 20, 2025