گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان — ایک ٹوئٹ نے دنیا ہلا دی
دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک، گوگل، حال ہی میں ایک غیر متوقع مالی جھٹکے سے دوچار ہوئی۔ صرف چند گھنٹوں میں گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا، اور اس نقصان کی وجہ صرف ایک ٹوئٹ بنی۔ یہ واقعہ نہ صرف سرمایہ کاروں کے لیے حیران کن تھا بلکہ اس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا دور شروع کر دیا ہے۔
اوپن اے آئی کا نیا اقدام — ChatGPT Atlas
یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب اوپن اے آئی (OpenAI) نے مصنوعی ذہانت پر مبنی اپنا نیا ویب براؤزر ChatGPT Atlas متعارف کرایا۔ کمپنی نے صرف ایک سادہ سی ٹوئٹ کے ذریعے اس کا اعلان کیا، مگر اس ٹوئٹ کے بعد عالمی منڈیوں میں ہلچل مچ گئی۔ گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ (Alphabet Inc.) کے شیئرز میں تقریباً 5 فیصد کی کمی دیکھی گئی، اور چند گھنٹوں میں گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا۔
سرمایہ کاروں نے فوری طور پر اپنے حصص بیچنے شروع کر دیے کیونکہ انہیں لگا کہ ChatGPT Atlas، گوگل کے براؤزر "Chrome” اور سرچ انجن کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
کیوں ہوا گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان؟
ماہرین کے مطابق، اس نقصان کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہونا تھا۔ ChatGPT Atlas ایک ایسا براؤزر ہے جو نہ صرف سرچ کرتا ہے بلکہ صارف کے لیے خودکار طریقے سے کام بھی انجام دیتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ:
فلائٹ بک کر سکتا ہے
دستاویزات میں ترمیم کر سکتا ہے
ڈیٹا کا تجزیہ کر سکتا ہے
اور ویب سائٹس سے براہِ راست گفتگو کر سکتا ہے
یہ تمام خصوصیات گوگل کے روایتی براؤزر سے کہیں آگے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ صرف ایک ٹوئٹ کے بعد گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
گوگل بمقابلہ ChatGPT Atlas
پہلو | ChatGPT Atlas | Google Chrome |
---|---|---|
سرچ طریقہ | AI پر مبنی گفتگو | الفاظ پر مبنی روایتی سرچ |
صارف کے لیے فیچرز | خودکار آن لائن ایکشنز | صرف سرچ اور براؤزنگ |
انٹرفیس | ذاتی نوعیت (Personalized) | عمومی (Generic) |
مستقبل کا وژن | خودکار ویب انٹریکشن | روایتی ویب استعمال |
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ChatGPT Atlas کامیاب ہو گیا تو گوگل کا موجودہ بزنس ماڈل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ یہی خدشہ تھا جس کی وجہ سے چند گھنٹوں میں گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا۔
سام آلٹمین کا بیان
اوپن اے آئی کے سی ای او سام آلٹمین نے ChatGPT Atlas کو “ایک دہائی میں آنے والا نایاب موقع” قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ براؤزر آن لائن دنیا کو بدل دے گا، اور صارف اب صرف “تلاش” نہیں بلکہ “عمل” (Action) بھی کر سکیں گے۔
یہ بیان سامنے آتے ہی ٹیک مارکیٹ میں مزید گراوٹ دیکھی گئی اور یوں گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان مزید بڑھتا چلا گیا۔
ChatGPT Atlas کی خصوصیات
ChatGPT Atlas کو “ذاتی معاون براؤزر” کہا جا رہا ہے جو صارف کے رویے، دلچسپیوں اور اہداف کو سمجھتا ہے۔ اس میں “Ask ChatGPT” کا فیچر شامل ہے جو ہر ویب سائٹ پر ظاہر ہوتا ہے، تاکہ صارف براہِ راست مواد سے متعلق سوال پوچھ سکے۔
Atlas کا “Agent Mode” بھی متعارف کرایا گیا ہے جو مکمل خودکار انداز میں آن لائن کام انجام دیتا ہے — مثلاً کسی نسخے کے اجزاء ڈھونڈنا، انہیں آن لائن شاپنگ کارٹ میں شامل کرنا، اور خود ہی خریداری مکمل کرنا۔
یہی وہ جدت تھی جس کے بعد کہا جانے لگا کہ گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان دراصل مستقبل کی ٹیکنالوجی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔
سرمایہ کاروں کا ردِعمل
اوپن اے آئی کے اعلان کے فوراً بعد الفابیٹ کے حصص 252.68 ڈالر سے گر کر 246.15 ڈالر پر آگئے۔ اس کمی کے نتیجے میں گوگل کی مارکیٹ ویلیو میں 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ریکارڈ کیا گیا۔ مالی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیک انڈسٹری میں اس پیمانے کا نقصان کم ہی دیکھا گیا ہے۔
گوگل کے لیے خطرے کی گھنٹی
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گوگل کے لیے یہ وقت خود احتسابی کا ہے۔ کمپنی نے اگرچہ اپنے AI ماڈل Gemini پر کام شروع کر دیا ہے، لیکن OpenAI کے Atlas کے مقابلے میں ابھی تک وہ پیچھے نظر آ رہی ہے۔
اگر گوگل نے اپنی حکمتِ عملی نہ بدلی تو ممکن ہے کہ آنے والے چند سالوں میں گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان معمولی بات بن جائے۔
صارفین کی رائے
صارفین کی ایک بڑی تعداد ChatGPT Atlas کے نئے فیچرز سے متاثر نظر آ رہی ہے۔ لوگ اسے “ذہین ترین براؤزر” قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب، گوگل کے صارفین یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا کمپنی اب بھی جدت لانے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں؟
گوگل نے وائرل نانو بنانا متعارف کرایا تخلیقی دنیا میں نیا انقلاب
یہ واقعہ صرف ایک مالی نقصان نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں طاقت کے توازن کی تبدیلی ہے۔ اوپن اے آئی کا ChatGPT Atlas ایک نئے دور کی شروعات ہے، جہاں براؤزر صرف تلاش کے لیے نہیں بلکہ عمل کے لیے استعمال ہوں گے۔
دنیا بھر کے ماہرین متفق ہیں کہ واقعی گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان محض ایک ٹوئٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے انقلاب کی علامت ہے۔