27ویں آئینی ترمیم: تکنیکی غلطی کے بعد واپس سینیٹ، کل دوبارہ منظوری
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جہاں 27ویں آئینی ترمیم پر حتمی منظوری کا مرحلہ زیرِ غور ہے۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ترمیم کو ترامیم کے ساتھ پاس کرنے کا قوی امکان ہے، لیکن سینیٹ سے آئی ایک تکنیکی غلطی نے معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سینیٹ میں تکنیکی غلطی کی تفصیل
ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے پاس ہوئی تھی، مگر دستاویز میں ایک تکنیکی خامی رہ گئی۔ اس غلطی کی وجہ سے قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد دوبارہ سینیٹ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کل (13 نومبر) سینیٹ کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جہاں دوبارہ منظوری لی جائے گی۔
27ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات
تین بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں
- آئینی عدالت کا قیام – تمام ہائی کورٹس کے ججز پر مشتمل ایک نئی آئینی عدالت قائم ہوگی۔
- صدرِ پاکستان کو تاحیات استثنیٰ – صدر مملکت کو آئینی تحفظ دیا جائے گا۔
- چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ – آرمی چیف کا عہدہ ختم کر کے چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ بنایا جائے گا۔
یہ تجاویز آئینی ترمیم کا بنیادی ڈھانچہ ہیں جن پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے بحث ہو چکی ہے۔
قومی اسمبلی میں بحث اور منظوری
گزشتہ روز وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی۔ حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے کھل کر رائے دی۔ آج اجلاس میں آئینی ترمیم کو حتمی شکل دینے کے لیے ترامیم پیش کی جا رہی ہیں۔ تاہم سینیٹ کی تکنیکی غلطی کے باعث 27ویں آئینی ترمیم کو دوبارہ سینیٹ بھیجنا لازمی ہو گیا ہے۔
کل سینیٹ اجلاس: کیا ہوگا؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ کل سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کی دوبارہ منظوری کے لیے ووٹنگ ہوگی۔ تکنیکی غلطی دور کرنے کے بعد آئینی ترمیم کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ اگر سینیٹ دوبارہ منظوری دے دیتی ہے تو 27ویں آئینی ترمیم قانون بن جائے گی۔
سیاسی ردعمل
اپوزیشن نے 27ویں آئینی ترمیم کے کچھ شقوں پر تحفظات ظاہر کیے ہیں، خاص طور پر صدر کو تاحیات استثنیٰ اور چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے پر۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد 27ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی اصلاحات اور اداروں کی مضبوطی کے لیے ضروری قرار دے رہا ہے۔
تاریخی پس منظر
یہ پہلا موقع نہیں جب آئینی ترامیم میں تکنیکی غلطیاں سامنے آئی ہوں۔ ماضی میں بھی 27ویں آئینی ترمیم جیسے معاملات میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے درمیان رابطے کی کمی سامنے آ چکی ہے۔ تاہم اس بار 27ویں آئینی ترمیم کی اہمیت اسے دیگر ترامیم سے ممتاز کرتی ہے۔
آئندہ لائحہ عمل
اگر کل سینیٹ آئینی ترمیم کی دوبارہ منظوری دے دیتی ہے تو یہ ترمیم صدرِ مملکت کو منظوری کے لیے بھیجی جائے گی۔ اس کے بعد پاکستان کے آئین کا حصہ بن جائے گی اور آئینی عدالت کا قیام، صدر کا استثنیٰ اور چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ قانونی حیثیت اختیار کر لے گا۔
دو تہائی اکثریت کے ساتھ ایوانِ بالا سے 27ویں آئینی ترمیم منظور، اپوزیشن واک آؤٹ کر گئی
27ویں آئینی ترمیم پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ تکنیکی غلطی کے باوجود دونوں ایوانوں کی سنجیدگی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ترمیم کو حتمی شکل دینے کے لیے تمام فریق سنجیدہ ہیں۔ کل کا سینیٹ اجلاس اس سلسلے کی آخری کڑی ہوگا۔









