غزہ میں قیامت صغریٰ — اسپتال کے ملبے سے 35 ناقابل شناخت لاشوں کی برآمدگی
محصور فلسطینی علاقے غزہ اسپتال ملبہ سے 35 ناقابل شناخت لاشیں برآمد ہونے کے بعد خطے میں خوف، دکھ اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ لاشیں ایک تباہ شدہ طبی مرکز (کلینک) کے ملبے سے برآمد ہوئیں جہاں چند روز قبل اسرائیلی فضائی حملے کیے گئے تھے۔
شہری دفاع کے اہلکاروں کے مطابق، ملبے میں اب بھی کئی لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔
یہ دل دہلا دینے والا منظر اس بات کی یاد دہانی ہے کہ غزہ اسپتال ملبہ اب انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کی علامت بن چکا ہے۔
اسرائیلی حملے اور جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق، گزشتہ ماہ امریکی صدر کی منظوری سے نافذ ہونے والی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملے جاری ہیں۔
غزہ کے مختلف علاقوں میں تازہ بمباری کے نتیجے میں تین مزید فلسطینی شہید ہوئے۔
یہ حملے عالمی دباؤ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود رک نہیں رہے۔

حماس نے بیان جاری کیا کہ:
“اسرائیلی فوج جان بوجھ کر اسپتالوں، رہائشی عمارتوں اور شہری پناہ گاہوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”
غزہ کے شہری دفاع کا کہنا ہے کہ غزہ اسپتال ملبہ میں اب بھی انسانی باقیات، دوائیوں کے کنستر، اور بچوں کے کھلونے بکھرے پڑے ہیں — جو ایک المناک کہانی سناتے ہیں۔
انسانی المیہ اپنی انتہا پر
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق، اب تک کی بربریت میں 69 ہزار 180 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
ہسپتالوں میں علاج کی سہولتیں ختم ہو چکی ہیں، بجلی اور پانی کی فراہمی معطل ہے۔
غزہ شہر کے ایک رہائشی نے بتایا:
“ہم ہر دن موت کے سائے میں جیتے ہیں۔ جب بھی کوئی دھماکہ ہوتا ہے، ہم نہیں جانتے کہ اگلا نشانہ کون ہوگا۔”
یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ اسپتال ملبہ صرف ایک عمارت کا ڈھانچہ نہیں، بلکہ انسانیت کی شکست کی علامت ہے۔
عالمی ردعمل — خاموشی یا بے بسی؟
دنیا بھر سے بیانات تو آ رہے ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، اور اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) نے اسرائیلی کارروائیوں پر تشویش ظاہر کی ہے، لیکن اسرائیل پر کسی قسم کی سخت پابندی عائد نہیں کی گئی۔
امریکی صدر کی جانب سے منظور شدہ جنگ بندی معاہدہ اب ایک “کاغذی وعدہ” ثابت ہو رہا ہے۔
عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق، جب تک عالمی طاقتیں انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے عملی قدم نہیں اٹھاتیں، غزہ اسپتال ملبہ جیسے مناظر بار بار دہرائے جائیں گے۔
تباہ شدہ کلینک اور شہداء کی شناخت میں مشکلات
غزہ کے ریسکیو اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تباہ شدہ کلینک میں لاشیں اس قدر مسخ ہو چکی تھیں کہ ان کی شناخت ممکن نہیں رہی۔
کئی لاشیں بچوں اور خواتین کی ہیں، لیکن ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر کچھ کہنا ممکن نہیں۔
ایک مقامی ڈاکٹر نے بتایا:
“ہم نے اسپتال کے ہر کمرے سے انسانی اعضا جمع کیے۔ ملبے کے نیچے اب بھی درجنوں افراد دبے ہوئے ہیں۔”
یہ منظر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ غزہ اسپتال ملبہ صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کا امتحان ہے۔
میڈیا پر قدغن — حقائق چھپائے جا رہے ہیں
غزہ میں آزاد میڈیا تک رسائی محدود ہے۔ صحافیوں کو اسپتالوں اور ملبے کے مقامات پر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
بین الاقوامی صحافتی تنظیموں نے اسرائیلی حکام پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافیوں کو میدانِ جنگ تک رسائی دیں تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔
حماس کا ردعمل اور عوامی مزاحمت
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائیاں فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں کر سکتیں۔
حماس کے ترجمان کے مطابق:
“ہماری مزاحمت جاری رہے گی جب تک فلسطین آزاد نہیں ہوتا۔ غزہ اسپتال ملبہ ہمارے شہداء کی گواہی دے رہا ہے۔”
انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے عالمی عدالت انصاف سے اپیل کی ہے کہ غزہ میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات جنگی جرائم کے طور پر کی جائیں۔
تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسپتالوں پر بمباری عالمی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل کا دوٹوک اعلان — غزہ میں ترک فوج کی کوئی جگہ نہیں
غزہ اسپتال ملبہ سے برآمد ہونے والی 35 لاشیں صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ انسانیت کے جسم پر زخم ہیں۔
یہ واقعہ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے — مگر سوال یہ ہے کہ کیا عالمی طاقتیں اب بھی خاموش رہیں گی؟
غزہ کے لوگ مدد، انصاف، اور آزادی کے منتظر ہیں۔
اور دنیا، شاید اب بھی صرف تماشائی ہے۔









