چینی کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کی ایک اور لہر، عوام شدید پریشان
پاکستان میں مہنگائی کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ کبھی آٹا مہنگا، کبھی گھی، کبھی بجلی اور کبھی پٹرول… مگر اس بار جس چیز نے عوام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ ہے چینی کی قیمتوں میں اضافہ۔ چینی جو ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے، جس کے بغیر چائے سے لے کر میٹھے تک کوئی چیز مکمل نہیں ہوتی، آج وہی عام پاکستانی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں میں چینی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس نے شہریوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ لوگ حیران بھی ہیں، پریشان بھی، اور یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ آخر کب تک بنیادی اشیاء کی قیمتیں اسی طرح بڑھتی رہیں گی۔
کوئٹہ میں قیمت سب سے زیادہ — 229 روپے فی کلو
رپورٹ کے مطابق کوئٹہ اس وقت پورے ملک میں وہ شہر ہے جہاں چینی کی قیمتوں میں اضافہ سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ صرف ایک ہفتے میں چینی کی فی کلو قیمت میں 19 روپے کا اضافہ ہوا اور یہ 210 روپے سے بڑھ کر 229 روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔
229 روپے میں چینی خریدنے پر شہری فطری طور پر حیران بھی ہیں اور غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
"گھر کا بجٹ پہلے ہی خراب تھا، اب چینی بھی 229 روپے؟ آخر غریب کہاں جائے؟” شہریوں کے یہی الفاظ میڈیا پر سنائی دے رہے ہیں۔
دیگر شہروں کی صورتحال
پورے ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ مختلف رفتار سے دیکھا جا رہا ہے:
پشاور: زیادہ سے زیادہ 200 روپے فی کلو
کراچی: 195 روپے فی کلو
اسلام آباد: 195 روپے فی کلو
راولپنڈی: 190 روپے فی کلو
کوئٹہ کے مقابلے میں دیگر شہروں میں قیمت کچھ کم ضرور ہے، مگر مسلسل اضافہ عام آدمی کی ہمت توڑ رہا ہے۔
اوسط قیمت میں کمی مگر حقیقت کچھ اور ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ ادارہ شماریات نے گزشتہ ہفتے دعویٰ کیا کہ ملک میں چینی کی اوسط قیمت میں 2 روپے ایک پیسے کی کمی ہوئی ہے، مگر مارکیٹ میں عوامی صورتحال اس کے برعکس ہے۔
اوسط قیمت اب 185 روپے 47 پیسے ہے جبکہ ایک سال پہلے یہی قیمت 132 روپے 24 پیسے تھی۔
یعنی صرف ایک سال میں اوسط قیمت میں 53 روپے سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ اضافہ عام آدمی کے بجٹ پر ناقابلِ برداشت دباؤ ڈال رہا ہے۔
چینی کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہوتا ہے؟
یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔ ماہرین کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافہ کئی وجوہات کی وجہ سے ہوتا ہے:
ذخیرہ اندوزی
جب ذخیرہ اندوز چینی مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں تو قیمتیں فوراً بڑھنے لگتی ہیں۔
پیداوار میں کمی
گنے کی فصل کم ہونے سے چینی کی پیداوار کم ہوتی ہے، اور قلت کے باعث قیمتیں اوپر چلی جاتی ہیں۔
درآمدی مسائل
اگر حکومت کو چینی درآمد کرنا پڑے تو ڈالر ریٹ کے باعث قیمتیں مزید بڑھتی ہیں۔
حکومتی پالیسی میں تاخیر
بعض اوقات فیصلوں میں تاخیر قیمتوں میں اچانک اضافہ پیدا کر دیتی ہے۔
ٹرانسپورٹ اور بجلی کے نرخ
ٹرانسپورٹ، فیول اور بجلی کے مہنگے ہونے سے چینی کی ملوں کو اخراجات بڑھانا پڑتے ہیں جو پھر صارفین تک منتقل ہوتے ہیں۔
عوامی ردِعمل — غصہ، بے بسی اور مایوسی
پاکستانی عوام اس وقت شدید پریشان ہیں۔
چینی صرف ایک خوراک نہیں، ہر گھر میں روزانہ استعمال ہونے والی بنیادی ضرورت ہے۔
ایک خاتون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:
"چینی کے بغیر گھر کا نظام ہی نہیں چلتا۔ پہلے چینی 80 روپے تھی، پھر 120 ہوئی، اب 230 روپے! ہم آخر جائیں تو کہاں جائیں؟”
مزدور طبقہ خاص طور پر سخت متاثر ہے۔ یومیہ 800 سے 1200 روپے کمانے والے افراد کے لیے چینی کی قیمتوں میں اضافہ برداشت کرنا ممکن نہیں۔
حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟
ماہرین اور شہری دونوں یہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ:
چینی کی قیمتوں میں اضافہ روکنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں
ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے
گنے کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے
سستی چینی کی فراہمی یقینی بنائی جائے
مارکیٹ مانیٹرنگ کو بہتر بنایا جائے
اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے دنوں میں چینی مزید مہنگی ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں چینی کی قیمت 220 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، عوام پریشان
مستقبل کیا کہتا ہے؟
آنے والے وقت میں چینی کی قیمتیں مستحکم ہوں گی یا مزید بڑھیں گی؟
اس کا انحصار حکومت کی پالیسیوں، پیداوار، درآمدات، اور مارکیٹ کنٹرول پر ہے۔
اگر صورتحال یہی رہی تو امکان ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔









