تحریک انصاف کے ارکان کے پارلیمانی کمیٹیوں سے استعفے – پارٹی میں ابہام اور اختلافات نمایاں
تحریک انصاف میں استعفوں کا معاملہ الجھاؤ کا شکار — قیادت کی ہدایات پر ابہام، ارکان شش و پنج میں مبتلا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اس وقت اندرونی کشمکش اور ابہام کا شکار نظر آتی ہے، جہاں پارٹی کے ارکان پارلیمانی اور حکومتی کمیٹیوں سے استعفوں کے معاملے پر یکسو نہیں ہو سکے۔ ایک طرف بانی پی ٹی آئی کی جانب سے واضح ہدایات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف سیاسی کمیٹی کے اقدامات اور اعلامیوں میں ایسے نکات شامل کیے جا رہے ہیں جو پارٹی کے اندرونی انتشار اور ناقص ہم آہنگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کی ہدایات اور سیاسی کمیٹی کا تاثر
پارٹی ذرائع کے مطابق، بانی تحریک انصاف نے صرف حکومتی کمیٹیوں سے استعفے دینے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم، پارٹی کی سیاسی کمیٹی نے ان ہدایات کی تشریح میں مبالغہ کرتے ہوئے اسے پارلیمانی کمیٹیوں تک پھیلا دیا۔ اس معاملے نے مزید الجھن اس وقت پیدا کی جب پارٹی کے جاری کردہ اعلامیے میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) جیسے اہم پارلیمانی ادارے کا بھی نام شامل کر لیا گیا۔
یہ اقدام پارٹی کے اندر سوالات کو جنم دینے کا باعث بنا۔ کئی ارکان کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی نیت صرف ان کمیٹیوں سے علیحدگی تھی جو حکومتی کنٹرول میں ہیں، جبکہ اپوزیشن کے زیرِ نگرانی کمیٹیوں میں پارٹی کا موجود رہنا حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔
وکلا سے مشاورت اور اعلامیہ کی تیاری
پارٹی ذرائع کے مطابق، بانی پی ٹی آئی نے اس معاملے پر وکلا سے خصوصی مشاورت کی، جس میں طے پایا کہ حکومتی کنٹرول میں آنے والی تمام کمیٹیوں سے استعفے دے دیے جائیں، مگر جن کمیٹیوں کی سربراہی حزبِ اختلاف کے پاس ہے، جیسے کہ کچھ پارلیمانی ذیلی کمیٹیاں، ان میں پی ٹی آئی اپنی موجودگی برقرار رکھے گی۔
پارٹی کے اعلامیے میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا حوالہ دیا گیا، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ اضافہ بیرسٹر گوہر علی خان کی سفارش پر کیا گیا۔ اس بات نے پارٹی کے کئی ارکان کو حیران کر دیا کیونکہ انہیں نہ صرف اس بارے میں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی، بلکہ اب وہ یہ طے کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ کون سی کمیٹی میں اپنی خدمات جاری رکھنی ہیں اور کہاں سے استعفیٰ دینا ہے۔
پارلیمانی کمیٹیوں کے چیئرمین بھی غیر واضح صورتحال کا شکار
پارٹی ذرائع کے مطابق، وہ ارکان جو پارلیمانی کمیٹیوں میں چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، انہیں تاحال کوئی واضح یا تحریری ہدایات نہیں دی گئیں۔ اس صورتحال نے ان کی پوزیشن کو نہایت غیر یقینی اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کچھ ارکان اس ابہام کو قیادت کی جانب سے داخلی مشاورت کے فقدان اور فیصلوں میں جلدبازی سے تعبیر کر رہے ہیں۔
عملاً کون سے ارکان مستعفی ہوئے؟
حکومتی کمیٹیوں میں شامل بعض ارکان نے عملی قدم اٹھا کر استعفے بھی پیش کر دیے ہیں۔ اس حوالے سے دو نام نمایاں طور پر سامنے آئے ہیں:
فیصل امین گنڈاپور
آصف خان
دونوں رہنماؤں نے باضابطہ طور پر استعفے پیش کر دیے ہیں، جو کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو ارسال کیے جا چکے ہیں۔ تاہم، دیگر ارکان اب بھی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور قیادت کی جانب سے مزید وضاحت کے منتظر ہیں۔
پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ — سیکرٹری جنرل کے لیے کئی نام زیر غور
استعفوں کے معاملے کے ساتھ ساتھ، پارٹی کی تنظیمی ڈھانچے میں بھی شدید ہلچل جاری ہے۔ پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کی نئی لہر نے پارٹی کو ایک اور چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لیے متعدد نام سامنے آ چکے ہیں، جس میں مختلف دھڑوں کے حمایت یافتہ افراد شامل ہیں۔ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی میں نہ صرف تنظیمی بحران ہے بلکہ اعتماد کا فقدان بھی شدید ہو چکا ہے۔
قیادت کا تذبذب اور فیصلوں میں تضاد
یہ پہلا موقع نہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت واضح اور مربوط فیصلے دینے میں ناکام رہی ہو۔ ماضی میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دی گئی ہدایات اور عملی اقدامات میں تضاد دیکھنے کو ملا۔ اس بار، استعفوں کے معاملے پر سامنے آنے والا ابہام اس بات کی مزید تصدیق کرتا ہے کہ پارٹی اس وقت تنظیمی سطح پر شدید الجھن کا شکار ہے۔
سیاسی مبصرین کا مؤقف
سیاسی مبصرین کے مطابق، پی ٹی آئی کی حالیہ پوزیشن یہ ظاہر کرتی ہے کہ پارٹی اپنی سمت کھو رہی ہے۔ حکومتی دباؤ، عدالتی کارروائیوں، گرفتاریوں اور داخلی اختلافات نے پارٹی کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر قیادت نے جلد از جلد داخلی صف بندی نہ کی اور تنظیمی انتشار کو قابو میں نہ لایا، تو آنے والے وقت میں پارٹی کو مزید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے:
"پی ٹی آئی اس وقت جس انتشار کا شکار ہے، وہ صرف حکومتی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ داخلی نااتفاقی اور فیصلوں کی غیر شفافیت بھی اس کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔”
آگے کا راستہ کیا ہو سکتا ہے؟
پارٹی کو اب فوری طور پر چند اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
واضح پالیسی اور اعلامیہ جاری کیا جائے جس میں تمام کمیٹیوں کی فہرست اور استعفوں کا دائرہ کار واضح ہو۔
پارلیمانی چیئرمین حضرات سے براہ راست مشاورت کی جائے تاکہ وہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کر سکیں۔
سیاسی کمیٹی کی تنظیم نو کی جائے تاکہ قیادت اور کارکنان کے درمیان رابطہ بہتر ہو اور فیصلوں میں یکجہتی پیدا کی جا سکے۔
تنظیمی بحران پر قابو پانے کے لیے سیکرٹری جنرل کا تقرر باہمی مشاورت سے کیا جائے۔
تحریک انصاف کے اندر جاری استعفوں کا معاملہ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پارٹی قیادت کی جانب سے دی گئی ہدایات اور سیاسی کمیٹی کے اقدامات میں واضح تضاد نے ارکان کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ جب تک پارٹی قیادت مکمل وضاحت اور تنظیمی اتحاد فراہم نہیں کرتی، تب تک یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی شفافیت، رابطہ کاری اور ذمہ داری کے اصولوں کو اپناتے ہوئے اپنی تنظیمی ڈھانچے کو مستحکم کرے، ورنہ یہ الجھنیں پارٹی کی ساکھ اور مستقبل پر سنگین اثر ڈال سکتی ہیں۔

