غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف ملک گیر آپریشن یکم ستمبر سے شروع
غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز: مہلت ختم، 11 لاکھ 69 ہزار سے زائد افغانی وطن واپس جا چکے
پاکستان میں موجود غیر قانونی افغان باشندوں کے لیے دی گئی مہلت کا وقت ختم ہو گیا ہے، اور اب یکم ستمبر 2025 سے ملک بھر میں غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد پاکستان میں غیر قانونی قیام کو روکنا، قانون کی عملداری کو یقینی بنانا اور سیکیورٹی کے معاملات کو منظم کرنا ہے۔
یہ فیصلہ حکومت پاکستان کی "ہارڈن اسٹیٹ پالیسی” کے تحت کیا گیا ہے، جس کے مطابق کوئی بھی غیر ملکی پاکستان میں بغیر قانونی دستاویزات یا مکمل ویزا اسٹیٹس کے قیام کا حق نہیں رکھتا۔
پس منظر: ایکسٹینشن کے بعد کارروائی کا آغاز
غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کو پہلے ہی ملک چھوڑنے کے لیے مہلت دی گئی تھی، جس میں بعد ازاں ایک ماہ کی ایکسٹینشن بھی دی گئی تاکہ جو افراد رضاکارانہ طور پر واپس جانا چاہتے ہیں، وہ انتظامات مکمل کر کے وطن واپس لوٹ سکیں۔ اس ایکسٹینشن کے دوران بڑی تعداد میں افغان خاندان پاکستان چھوڑ کر افغانستان واپس چلے گئے۔
واپس جانے والے افغان باشندوں کے اعداد و شمار:
مجموعی طور پر واپس جانے والے افغانی: 11 لاکھ 69 ہزار سے زائد
بلوچستان سے واپسی: 5 لاکھ 8 ہزار
خیبر پختونخوا سے واپسی: 6 لاکھ 82 ہزار
اسلام آباد سے واپسی: 8 ہزار 700
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ افغان شہریوں کی اکثریت نے حکومت پاکستان کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے خود کو وطن واپسی کے لیے تیار کیا، خاص طور پر ان علاقوں سے جہاں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد موجود تھی۔
ملک گیر آپریشن: سخت اقدامات کی تیاری
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ایسے تمام افغان شہریوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی جو:
بغیر کسی قانونی ویزا یا اجازت نامے کے مقیم ہیں
پی او آر (Proof of Registration) کارڈ ہولڈر ہیں
اے سی سی (Afghan Citizen Card) رکھنے والے ہیں جن کی قانونی حیثیت ختم ہو چکی ہے
ان افراد کو اب ڈی پورٹ کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے، ایف آئی اے، پولیس، امیگریشن حکام اور متعلقہ انتظامیہ حرکت میں آ چکی ہے۔
کن افراد کو استثنیٰ حاصل ہوگا؟
حکومت نے واضح کیا ہے کہ صرف ان افغان شہریوں کو کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہو گا:
جن کے پاس پاکستان کا ویلڈ (Valid) ویزا ہو
جو قانونی طور پر رجسٹرڈ اور منظور شدہ بین الاقوامی اداروں کے ذریعے پاکستان میں موجود ہوں
جو مہاجر کیمپوں میں قانونی شناخت کے ساتھ مقیم ہوں اور اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں
کونسی دستاویزات ناقابل قبول ہیں؟
پی او آر کارڈ، جو پہلے افغان مہاجرین کی شناخت کے لیے جاری کیا گیا تھا، اب قانونی حیثیت کھو چکا ہے
اے سی سی کارڈز کی معیاد بھی ختم ہو چکی ہے اور ان پر قیام کی اجازت اب قابلِ قبول نہیں
بغیر ویزا یا امیگریشن دستاویزات کے قیام کرنے والے افراد کو کسی بھی رعایت کا سامنا نہیں ہو گا
حکومتی اقدامات اور احکامات
وفاقی حکومت نے اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز، ہوم ڈیپارٹمنٹس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ ان احکامات میں درج ذیل امور شامل ہیں:
غیر قانونی افغان باشندوں کی شناخت، گرفتاری اور ملک بدری
سرحدی چیک پوسٹس اور امیگریشن دفاتر پر نگرانی سخت کر دی گئی ہے
شہروں، دیہاتوں، بازاروں، بس اڈوں، تعمیراتی مقامات، فیکٹریز اور مہاجر بستیوں میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کی جائیں گی
ڈیٹا بیس کی مدد سے شناخت کا عمل مکمل کیا جا رہا ہے تاکہ کسی غیر قانونی مقیم فرد کو رعایت نہ دی جا سکے
سرکاری مؤقف
حکومتی ترجمان کا کہنا ہے:
"یہ فیصلہ قومی مفاد اور سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ہم کسی بھی غیر ملکی کو بغیر قانونی حیثیت کے پاکستان میں قیام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم نے افغان بھائیوں کو بارہا موقع دیا کہ وہ قانونی طریقے سے واپس جائیں، اور لاکھوں افراد نے حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رضاکارانہ واپسی اختیار کی۔ اب جو باقی رہ گئے ہیں، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔”
بین الاقوامی ردعمل اور سفارتی توازن
اس اقدام پر عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظر بھی ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ اور افغان حکومت کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا ہے تاکہ:
واپسی کے عمل میں انسانی وقار کا خیال رکھا جائے
مہاجرین کی واپسی باعزت اور پرامن انداز میں ممکن ہو
افغانستان میں واپس جانے والے شہریوں کے لیے بین الاقوامی امدادی ادارے سہولت فراہم کریں
عوامی سطح پر ردعمل
پاکستانی عوام کی اکثریت اس اقدام کو قانون کی بالادستی، معاشی تحفظ، اور سیکیورٹی کا لازمی حصہ قرار دے رہی ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں افغان شہری بڑی تعداد میں مقیم تھے، وہاں مقامی افراد نے ان کے خلاف متعدد بار شکایات درج کرائی تھیں، جن میں:
ملازمتوں پر قبضہ
جرائم میں ملوث ہونا
شناخت چھپانے کی کوشش
غیر قانونی تجارت
اب اس آپریشن سے امید ہے کہ شہری امن و امان میں بہتری آئے گی۔
اگلے مراحل کیا ہوں گے؟
یکم ستمبر سے غیر قانونی افغان باشندوں کی گرفتاری اور ملک بدری کا سلسلہ شروع ہو جائے گا
ڈیٹنشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جہاں ان افراد کو وقتی طور پر رکھا جائے گا
بارڈر کراسنگ پوائنٹس کو خاص طور پر فعال بنایا گیا ہے تاکہ واپسی کے عمل کو تیز کیا جا سکے
مستقبل میں پاکستان آنے والے تمام افراد کے لیے بایومیٹرک رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا جائے گا
پاکستان کی جانب سے غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز ایک اہم اور فیصلہ کن اقدام ہے، جس کا مقصد ملک میں قانون کی عملداری، سیکیورٹی کی بہتری، اور معاشی نظام کا تحفظ ہے۔ لاکھوں افغان باشندوں کی رضاکارانہ واپسی اس بات کا ثبوت ہے کہ پالیسی مؤثر رہی۔ اب باقی رہ جانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان میں غیر قانونی رہائش کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب پاکستان کو داخلی اور خارجی سطح پر مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، اور ملکی سیکیورٹی اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سخت فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ آپریشن کس حد تک مؤثر ثابت ہوتا ہے اور مستقبل میں غیر قانونی تارکین وطن کے حوالے سے حکومت کی پالیسی کس سمت اختیار کرتی ہے۔
Comments 3