پاکستان میں مقیم پی او آر کارڈ ہولڈر افغان باشندے ایک بار پھر ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں، کیونکہ حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی رضاکارانہ واپسی کی ڈیڈلائن ختم ہوچکی ہے
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد ملک میں موجود افغان مہاجرین کے مستقبل کے حوالے سے ایک نیا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔
پس منظر
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد لاکھوں افغان شہری پاکستان ہجرت کر آئے۔ ان میں سے بڑی تعداد نے پاکستان کے مختلف شہروں میں سکونت اختیار کی۔ حکومت پاکستان نے ان شہریوں کو عارضی طور پر سہولت دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے جن میں پی او آر (Proof of Registration) کارڈ بھی شامل تھا، جو افغان شہریوں کو ایک قانونی حیثیت فراہم کرتا تھا۔

یہ کارڈ بنیادی طور پر افغان مہاجرین کو رجسٹر کرنے اور ان کی قانونی شناخت قائم رکھنے کے لیے جاری کیے گئے تھے تاکہ وہ پاکستان میں باآسانی رہ سکیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کارڈز کی حیثیت اور مدتِ میعاد کے حوالے سے مختلف سوالات اٹھتے رہے۔
رضاکارانہ واپسی کی ڈیڈلائن
حکومت پاکستان نے حالیہ برسوں میں فیصلہ کیا کہ ملک میں مقیم تمام پی او آر کارڈ ہولڈر افغان باشندے رضاکارانہ طور پر واپس جائیں۔ اس مقصد کے لیے ایک ڈیڈلائن دی گئی تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے۔ حکام کے مطابق یہ فیصلہ ملک کے اندرونی حالات، سیکورٹی خدشات اور معاشی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق، حکومت پاکستان نے افغان شہریوں کو متعدد مواقع دیے کہ وہ باعزت طریقے سے وطن واپس لوٹیں۔ اس دوران بین الاقوامی ادارے بھی شامل رہے تاکہ واپسی کے عمل کو انسانی ہمدردی کے تقاضوں کے مطابق یقینی بنایا جا سکے۔
ویزہ ہولڈرز کے لیے نرمی
ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جن افغان شہریوں کے پاس پاکستان کے مختلف ویزے موجود ہیں، ان کے ساتھ نرمی برتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر میڈیکل ویزا اور اسٹڈی ویزا رکھنے والے افغان شہریوں کو اس فیصلے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایسے شہریوں کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں اپنی ویزا مدت کے مطابق رہائش کی اجازت ہوگی۔

ذرائع کے مطابق، صرف وہ افغان باشندے ملک بدر کیے جا رہے ہیں جن کے پاس درست ویزے موجود نہیں ہیں یا جن کے ویزے کی مدت ختم ہوچکی ہے۔ ان افراد کو واپسی کے عمل میں سہولت اور معاونت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ وہ اپنے وطن واپس جا سکیں۔
اعداد و شمار
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، اب تک صرف اسلام آباد سے ہی 16 ہزار 400 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ یہ عمل بتدریج جاری ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید افغان باشندے اپنے وطن واپس جائیں گے۔
افغان باشندوں کے خدشات
بہت سے پی او آر کارڈ ہولڈر افغان باشندے اس فیصلے کے بعد پریشانی کا شکار ہیں۔ ان میں سے کئی دہائیوں سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، ان کے بچے یہاں پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ شہریوں کا کہنا ہے کہ ان کا افغانستان سے اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا کیونکہ وہاں ان کے پاس نہ گھر ہے اور نہ ہی روزگار۔

کئی افغان تاجر بھی پاکستان میں کاروبار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اچانک ملک بدر کیے جانے سے ان کی زندگی اجڑ جائے گی۔ خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی متاثر ہو رہی ہے جو پاکستان میں تعلیم اور علاج معالجے کی سہولیات حاصل کر رہی تھیں۔
حکومت کا مؤقف
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغان عوام کے دکھ درد کو سمجھتی ہے، تاہم ملک کی معاشی اور سکیورٹی صورتحال اجازت نہیں دیتی کہ مزید افغان باشندے غیر معینہ مدت تک پاکستان میں رہیں۔ حکام کے مطابق، پاکستان نے چار دہائیوں تک لاکھوں افغان شہریوں کی میزبانی کی ہے، جو دنیا کی تاریخ میں ایک مثال ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغان عوام اپنے وطن واپس جا کر وہاں اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔
عالمی ردعمل
بین الاقوامی ادارے جیسے کہ اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) بھی اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے زور دیا ہے کہ افغان شہریوں کی واپسی کا عمل رضاکارانہ اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے واپسی کرنے والے افراد کے لیے ضروری سہولیات اور تحفظ فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔
انسانی ہمدردی کے پہلو
ماہرین کا کہنا ہے کہ پی او آر کارڈ ہولڈر افغان باشندے محض ایک انتظامی یا قانونی مسئلہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ لاکھوں افغان بچے پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اچانک وطن واپسی سے ان کی پڑھائی متاثر ہوگی۔ اسی طرح بیمار افراد جو علاج کے لیے پاکستان میں مقیم ہیں، ان کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
مستقبل کا لائحہ عمل
ذرائع کے مطابق، حکومت پاکستان مستقبل میں افغان باشندوں کے لیے ایک نیا پالیسی فریم ورک تیار کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس فریم ورک میں یہ طے کیا جائے گا کہ کون سے افغان شہری پاکستان میں قیام کر سکتے ہیں اور کنہیں واپس جانا ہوگا۔ اس پالیسی کا مقصد یہ ہوگا کہ پاکستان کے معاشی اور سکیورٹی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے انسانی ہمدردی کے تقاضے بھی پورے کیے جائیں۔
یہ واضح ہے کہ پی او آر کارڈ ہولڈر افغان باشندے اس وقت ایک مشکل دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف وہ پاکستان میں دہائیوں سے مقیم ہیں اور ان کی زندگیوں کا بیشتر حصہ یہیں گزرا ہے، جبکہ دوسری طرف حکومت پاکستان ملکی مفاد میں ان کی واپسی پر زور دے رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ مسئلہ کس سمت اختیار کرتا ہے اور دونوں ممالک کس طرح اس انسانی اور سیاسی بحران کا حل نکالتے ہیں۔
غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف آپریشن: یکم ستمبر سے ملک گیر کریک ڈاؤن کا آغاز
Comments 1