خیبر پختونخوا میں غیر قانونی لکڑی سمگلنگ پر سخت کارروائی کا اعلان
خیبر پختونخوا: غیر قانونی لکڑی کی اسمگلنگ پر نیا ضابطہ، جرمانے کے بجائے ضبطی اور اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ
پشاور — محکمہ جنگلات، خیبر پختونخوا نے جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ کے خلاف ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن اقدام اٹھاتے ہوئے نیا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق اب کسی کارروائی کے دوران پکڑی جانے والی غیر قانونی لکڑی پر صرف جرمانہ عائد کرنے کے بجائے وہ لکڑی مکمل طور پر ضبط کر لی جائے گی، اور سب سے اہم بات یہ کہ اسمگل شدہ لکڑی جس علاقے سے برآمد ہو، وہاں تعینات محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے خلاف بھی سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
یہ فیصلہ جنگلات کے تحفظ اور غیر قانونی اسمگلنگ کے مکمل خاتمے کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اقدام کو ماحولیاتی تحفظ، جنگلات کی بحالی، اور محکمانہ شفافیت کے تناظر میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔
نوٹیفکیشن کا پس منظر: ایک سنجیدہ مسئلے کی سنجیدہ اصلاح
خیبر پختونخوا وہ صوبہ ہے جو پاکستان کے کل جنگلات کا تقریباً 40 فیصد حصہ رکھتا ہے۔ وادی کوہستان، سوات، دیر، چترال، مانسہرہ، اور ہزارہ جیسے علاقے قدرتی جنگلات سے مالا مال ہیں، جو نہ صرف ماحولیاتی توازن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ان سے وابستہ ہزاروں خاندانوں کا روزگار بھی جڑا ہوا ہے۔
تاہم، گزشتہ کئی دہائیوں سے ان قیمتی جنگلات کو بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔ لکڑی کی اسمگلنگ ایک منظم مافیا کے زیرِ اثر رہی ہے، جس میں بعض اوقات محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کی ملی بھگت کی شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ پرانے نظام میں اکثر اسمگل شدہ لکڑی پر جرمانہ لگا کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا تھا، جس سے نہ صرف اسمگلروں کو کھلی چھوٹ ملتی تھی بلکہ اہلکاروں کے لیے بھی راستے کھلے رہتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ محکمہ جنگلات نے اب ایک سخت پالیسی متعارف کروائی ہے، تاکہ جرم کی جڑ کو کاٹا جا سکے، نہ کہ صرف اس کے اثرات کا سطحی علاج کیا جائے۔
نوٹیفکیشن کی تفصیلات: جرم پر سمجھوتہ نہیں
نوٹیفکیشن کے مطابق:
کسی بھی کارروائی کے دوران پکڑی جانے والی غیر قانونی لکڑی اب ضبط کی جائے گی، اور اس پر محض جرمانے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
وہ علاقہ جہاں سے لکڑی پکڑی گئی ہو، وہاں تعینات محکمہ جنگلات کے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف فوری طور پر انکوائری کی جائے گی۔
اگر کسی اہلکار کی غفلت، چشم پوشی یا ملی بھگت ثابت ہو گئی تو اس کے خلاف محکمانہ ضابطے کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، جس میں معطلی، برطرفی یا قانونی چارہ جوئی شامل ہو سکتی ہے۔
محکمہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہر علاقے میں لکڑی کی نقل و حمل پر مکمل نگرانی رکھی جائے، اور تمام راستوں پر چیک پوسٹس کو مؤثر بنایا جائے۔
اصلاحات کی جانب ایک اہم قدم
یہ اقدام نہ صرف غیر قانونی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کرے گا بلکہ محکمانہ شفافیت اور جوابدہی کو بھی فروغ دے گا۔ ماضی میں، جرمانے کا نظام بعض اوقات اتنا نرم تھا کہ اسمگلر اُسے کاروباری لاگت سمجھ کر بآسانی برداشت کر لیتے تھے۔ اس نئی پالیسی کے تحت نہ صرف ان کا مالی نقصان ہوگا بلکہ ضبطی کی صورت میں ان کے کاروباری سلسلے کو مستقل دھچکا پہنچے گا۔
علاوہ ازیں، علاقائی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ صرف مجرموں کو پکڑنا کافی نہیں بلکہ نظام کو اندر سے صاف کرنا بھی ضروری ہے۔ جب تک اہلکاروں کو احتساب کا خوف نہ ہو، قانون پر عملدرآمد محض دکھاوے تک محدود رہتا ہے۔
جنگلات کا تحفظ: قومی سلامتی اور ماحولیاتی توازن کا مسئلہ
جنگلات کی کٹائی نہ صرف حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی ماحولیاتی مسائل شدید ہیں، درختوں کی کمی موسمیاتی تبدیلی، سیلاب، زمین کے کٹاؤ، اور گرمی کی شدت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔ ایسے میں جنگلات کا تحفظ صرف ایک صوبائی معاملہ نہیں بلکہ قومی اور عالمی اہمیت کا حامل ہے۔
محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کا یہ اقدام ان کوششوں کا حصہ ہے جو پاکستان نے 10 بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں کے تحت شروع کی ہیں۔ جب تک جنگلات کی غیر قانونی کٹائی پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جاتا، ماحولیاتی پالیسیوں کے اثرات دیرپا ثابت نہیں ہو سکتے۔
عوامی شمولیت اور بیداری کی ضرورت
یہ فیصلہ اگرچہ حکومتی سطح پر ایک مثبت قدم ہے، تاہم اس کی کامیابی عوامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ مقامی برادریوں، خصوصاً ان علاقوں میں جہاں لکڑی کی کٹائی عام ہے، کو اس نئے ضابطے کے بارے میں آگاہی دینا ضروری ہے۔ سول سوسائٹی، میڈیا، اور تعلیمی ادارے اس پیغام کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں، شفاف طریقہ کار کے تحت مقامی لوگوں کو متبادل ذرائع آمدن اور ایندھن کے ذرائع فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے، تاکہ وہ جنگلات کو نقصان پہنچائے بغیر اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔
قانون کی حکمرانی اور قدرتی وسائل کا تحفظ
محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کا یہ نیا نوٹیفکیشن ایک پالیسی تبدیلی سے بڑھ کر، ایک نظریاتی تبدیلی کا مظہر ہے۔ اس میں جنگلات کو صرف قدرتی وسائل کے طور پر نہیں، بلکہ قومی اثاثے اور آنے والی نسلوں کی امانت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ اس کے تحت نہ صرف غیر قانونی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ نظام میں موجود خامیوں اور بدعنوانی کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔
اگر اس پالیسی پر مؤثر طریقے سے عملدرآمد کیا گیا، تو نہ صرف جنگلات محفوظ ہوں گے بلکہ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں میں بھی احساسِ جوابدہی پیدا ہوگا، جو کسی بھی ادارے کی بہتری کی بنیادی شرط ہے۔