پی ٹی آئی میں بڑائی کی جنگ پارلیمانی کمیٹی اور سیاسی کمیٹی آمنے سامنے
پی ٹی آئی میں قیادت کی کھینچا تانی: پارلیمانی کمیٹی بمقابلہ سیاسی کمیٹی
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، جو ایک دہائی تک پاکستان کی سیاست میں تبدیلی کی علامت سمجھی جاتی رہی، اب خود اندرونی خلفشار اور قیادت کی کشمکش کا شکار نظر آ رہی ہے۔ پارٹی کے اندر اس وقت "کون بڑا اور کون چھوٹا” کی بحث شدت اختیار کر چکی ہے، جس کا مرکز پارلیمانی کمیٹی اور سیاسی کمیٹی کے درمیان جاری سرد جنگ ہے۔
پارٹی میں طاقت کا مرکز: پارلیمانی یا سیاسی کمیٹی؟
تحریک انصاف کے تنظیمی ڈھانچے میں دو بنیادی ستون سمجھے جاتے ہیں:
پارلیمانی کمیٹی: جس کے ارکان عام طور پر منتخب نمائندے ہوتے ہیں، یعنی وہ اراکینِ اسمبلی یا سینیٹ جنہوں نے عوامی مینڈیٹ حاصل کیا۔
سیاسی کمیٹی: یہ وہ پلیٹ فارم ہے جو پارٹی کی اعلیٰ سطحی پالیسی سازی، بیانیے اور اسٹریٹیجک فیصلوں میں کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں اکثر وہ شخصیات شامل ہوتی ہیں جو پارٹی کے بانیوں یا قیادت کے قریبی حلقے سے تعلق رکھتی ہیں، مگر عوامی نمائندگی نہیں رکھتیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، پارلیمانی پارٹی نے سیاسی کمیٹی کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ پارلیمانی کمیٹی نے نہ صرف سیاسی کمیٹی کے فیصلے ماننے سے انکار کیا ہے بلکہ سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ پر بھی تحفظات اور عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
سیاسی کمیٹی پر اعتراضات: غیر منتخب افراد کا غلبہ
پارلیمانی پارٹی کا مؤقف ہے کہ سیاسی کمیٹی میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جنہیں عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ اس فہرست میں سلمان اکرم راجہ، عالیہ حمزہ، شوکت بسرا، اور شعیب شاہین جیسے رہنما شامل ہیں۔
پارلیمانی ارکان کا دعویٰ ہے کہ یہ غیر منتخب افراد پارٹی کی پالیسیاں بنانے اور پارلیمانی معاملات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، جو جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
مزید برآں، پارلیمانی کمیٹی نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ آئندہ وہ سیاسی کمیٹی کے کسی بھی فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گی اور پارٹی کے تمام تر فیصلے اب پارلیمانی سطح پر خود کیے جائیں گے۔
پسِ منظر: پارٹی کے اندرونی اختلافات کی جڑیں
تحریک انصاف اس وقت جن داخلی مسائل کا سامنا کر رہی ہے، ان کا آغاز دراصل 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد ہوا، جب پارٹی پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کئی سینئر رہنما یا تو الگ ہو گئے یا پس منظر میں چلے گئے۔
اس صورتحال نے پارٹی کے اندر قیادت کا خلا پیدا کیا، جسے مختلف دھڑوں نے پر کرنے کی کوشش کی۔ کچھ نے قانونی محاذ سنبھالا، کچھ نے سیاسی، اور کچھ نے پارلیمانی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے سیاسی اور پارلیمانی کمیٹیوں کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا۔
سلمان اکرم راجہ پر تحفظات: ایک تکنیکی شخصیت یا متنازع کردار؟
سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، جو ایک قابل وکیل اور قانونی ماہر سمجھے جاتے ہیں، پارٹی میں تنظیمی اور قانونی فیصلوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم، پارلیمانی کمیٹی کے نزدیک اُن کی حیثیت اور اختیار غیر واضح اور غیر آئینی ہے۔
پارلیمانی ارکان کا مؤقف ہے کہ سلمان اکرم راجہ نے پارٹی کے اندرونی فیصلوں میں حد سے زیادہ مداخلت کی ہے اور کئی بار منتخب نمائندوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلے مسلط کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان پر کھل کر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اختلافات کے اثرات: قیادت کا بحران یا تنظیمِ نو کا موقع؟
یہ سوال نہایت اہم ہے کہ آیا یہ اندرونی اختلافات پارٹی کے لیے تباہ کن ہیں یا ایک نئے اور زیادہ جمہوری تنظیمی ڈھانچے کی بنیاد بن سکتے ہیں؟
منفی پہلو:
پارٹی میں تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے۔
عوام اور کارکنوں کا اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔
سیاسی حریف اس اختلاف کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
مثبت پہلو:
پارٹی کے اندر جمہوری مزاج کو فروغ مل سکتا ہے۔
غیر منتخب افراد کی سیاسی اجارہ داری ختم ہو سکتی ہے۔
عوامی نمائندوں کی آواز کو مرکزی حیثیت مل سکتی ہے۔
بانی رہنما کی بہنوں کا کردار: اختلافات کے خاتمے کی کوشش
دلچسپ بات یہ ہے کہ ذرائع کے مطابق، پارلیمانی پارٹی اب بانی رہنما کی بہنوں سے رابطے میں ہے تاکہ وہ پارٹی کے اندر جاری اختلافات ختم کروانے میں کردار ادا کریں۔ یہ پہلو نہ صرف انسانی رشتوں کا سیاسی استعمال ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ پارٹی کے اندر اصل اثر و رسوخ کن حلقوں میں ہے۔
کیا پارٹی تقسیم کے دہانے پر ہے؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر یہ اختلافات فوری طور پر حل نہ ہوئے تو:
پارٹی اندرونی طور پر مزید کمزور ہو جائے گی،
آئندہ انتخابات میں امیدواروں کے چناؤ میں شدید تضاد سامنے آ سکتا ہے،
اور پارٹی کی مرکزی قیادت غیر مؤثر ہو سکتی ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کی یہ ضد کہ وہ اب سیاسی کمیٹی کے کسی بھی حکم کو تسلیم نہیں کرے گی، بظاہر ایک داخلی بغاوت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
حل کیا ہے؟
اس صورتحال کا حل مفاہمت، شفافیت، اور تنظیمی اصلاحات میں ہے:
سیاسی کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات کی تحریری وضاحت کی جائے۔
پارٹی کے اندر ایک آزاد ثالثی کمیٹی تشکیل دی جائے جو غیر جانبداری سے اختلافات حل کرے۔
سیکرٹری جنرل جیسے عہدوں پر ایسے افراد کو تعینات کیا جائے جنہیں دونوں دھڑے قبول کرتے ہوں۔
پارٹی کے تمام فیصلوں کو منتخب نمائندوں کی منظوری سے مشروط کیا جائے۔
قیادت کی کشمکش، مستقبل کی راہ پر سوالیہ نشان
پی ٹی آئی اس وقت ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف تجربہ کار، مگر غیر منتخب افراد کا گروہ ہے جو پارٹی کی سمت طے کرنا چاہتا ہے، تو دوسری طرف عوامی نمائندے ہیں جو کہتے ہیں کہ اصل طاقت اُن کے پاس ہونی چاہیے جنہیں ووٹ کے ذریعے چُنا گیا ہو۔
اگر یہ کشمکش جلد ختم نہ ہوئی، تو پارٹی نہ صرف عوام میں اپنی ساکھ کھو سکتی ہے، بلکہ سیاسی میدان میں اپنی گرفت بھی کمزور کر سکتی ہے۔
