چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا بڑا بیان: عہدیداران کو ہٹایا جا رہا ہے تو بات چیت کیسے ممکن؟
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا اہم بیان: "جب عہدیداران کو ہٹایا جا رہا ہو، تو بات چیت کیسے ہو؟”
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے حالیہ سیاسی منظرنامے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب پارٹی کے عہدیداروں کو عہدوں سے ہٹایا جا رہا ہو، ارکانِ اسمبلی کو نااہل قرار دیا جا رہا ہو اور اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جا رہا ہو، تو ایسے میں مذاکرات کا ماحول کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے متعدد اہم قومی امور پر بات کی، جن میں سیلاب کی صورتحال، سیاسی انتقامی کارروائیاں، آئینی حدود، اور فوج کی قربانیوں کا اعتراف شامل ہے۔
سیاسی عدم برداشت کے خلاف احتجاج
چیئرمین پی ٹی آئی نے گفتگو کا آغاز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تنقیدی انداز میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے ساتھ موجودہ حکومت کا رویہ کسی طور بھی مفاہمت یا بات چیت کی راہ ہموار نہیں کر رہا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا:
"ہمارے اپوزیشن لیڈرز کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے، ارکان اسمبلی کو نااہل کیا جا رہا ہے، ایسے میں ہم بات چیت کیسے کریں؟”
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب عمر ایوب کی نااہلی کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ خالی ہو چکا ہے، اور پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کو قائمہ کمیٹیوں سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر کے چیمبر کو بھی تالے لگا دیے گئے، جسے سیاسی حلقے ایک سنگین اقدام تصور کر رہے ہیں۔
آئینی بالادستی اور قانون سازی پر مؤقف
بیرسٹر گوہر نے گفتگو کے دوران آئین کی بالادستی پر زور دیا اور کہا کہ:
"ہر کسی کی مدت کا تعین آئین کے مطابق ہونا چاہیے، ہم نے نہ اس قانون سازی کو چیلنج کیا ہے، نہ کرنے کا ارادہ ہے۔”
یہ بیان بظاہر اس حالیہ قانون سازی کے حوالے سے ہے جس کے تحت اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی یا توسیع کی مدت متعین کی جا رہی ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ پی ٹی آئی آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر ہی اپنا سیاسی لائحہ عمل طے کرے گی۔
فوج کی قربانیوں کا اعتراف
اپنی گفتگو میں چیئرمین پی ٹی آئی نے افواج پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:
"پاک فوج نے ملک کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، ملک کا دفاع کیا ہے، اور حال ہی میں ایک جنگ جیتی ہے، ہم ان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔”
یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب سیاسی حلقوں میں افواج کے کردار پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بیرسٹر گوہر کا یہ متوازن مؤقف ان کی مفاہمتی سوچ کا عکاس بھی ہے اور سیاسی شدت پسندی سے گریز کا پیغام بھی دیتا ہے۔
سیلاب متاثرین کے لیے اپیل
ملک میں جاری حالیہ سیلاب کی سنگین صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے تمام جماعتوں کو سیاست اور صوبائیت سے بالاتر ہو کر متاثرین کی مدد کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا:
"اس وقت ملک میں سیلاب کی صورتحال ہے، تمام جماعتوں کو سیاست سے بالاتر ہوکر متاثرین کی مدد کرنی چاہیے۔ پنجاب حکومت سے بھی کہتا ہوں کہ مل کر کام کریں۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت سیلاب متاثرین کی امداد میں مصروف ہے، اور وہ خود بھی پیر سے بونیر اور دیگر متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے تاکہ عوام کے مسائل کو براہِ راست جان سکیں۔
اپوزیشن کی شنوائی نہ ہونے پر تحفظات
بیرسٹر گوہر نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو نظرانداز کیے جانے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"جب آپ ہمارے ارکان کو نااہل کر رہے ہیں، کمیٹیوں سے نکال رہے ہیں، عہدے چھین رہے ہیں، تو بات چیت کیسے ممکن ہو؟”
یہ ایک اہم نکتہ ہے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی صرف نظریاتی اختلافات تک محدود نہیں بلکہ عملی اور ادارہ جاتی اقدامات نے بھی ماحول کو مزید تلخ بنا دیا ہے۔
2030 تک منصوبہ بندی پر رائے
جب ان سے مستقبل کی سیاسی منصوبہ بندی سے متعلق سوال کیا گیا تو بیرسٹر گوہر نے محتاط اور حقیقت پسندانہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا:
"2030 تک پلان کی جہاں تک بات ہے تو پلان تو سب کرتے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔”
یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت طویل المدتی حکمت عملی پر غور کر رہی ہے، مگر حالات کی غیر یقینی نوعیت کے باعث کوئی حتمی اعلان کرنے سے گریزاں ہے۔
سیاسی مکالمے کی راہ میں رکاوٹیں
بیرسٹر گوہر کا مؤقف اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مکالمہ تقریباً بند ہو چکا ہے۔ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ جب تک اسے مساوی سیاسی و آئینی حقوق نہیں دیے جاتے، تب تک مذاکراتی عمل بے معنی ہے۔
یہ نکتہ جمہوریت کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔ کسی بھی پارلیمانی نظام میں اپوزیشن کو دبانا یا اسے نمائندگی سے محروم کرنا سیاسی عمل کو یکطرفہ اور غیر متوازن بنا دیتا ہے۔
سیاسی مفاہمت یا محاذ آرائی؟
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا حالیہ بیان کئی حوالوں سے اہم ہے۔ ایک طرف وہ افواجِ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں، سیلاب متاثرین کے لیے یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں، اور آئین کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں؛ مگر دوسری جانب وہ سیاسی انتقام، اپوزیشن کی غیر موجودگی، اور عہدوں سے محرومی جیسے اہم مسائل پر بھی کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں۔
ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی مفاہمت کے دروازے بند نہیں کر رہی، مگر موجودہ حالات میں خود کو دیوار سے لگایا ہوا محسوس کرتی ہے۔ ایسے میں اگر حکومت، اپوزیشن اور ریاستی ادارے ایک متفقہ فریم ورک پر کام کرنے کے لیے تیار ہو جائیں تو موجودہ سیاسی بحران سے نکلنا ممکن ہے۔
