توشہ خانہ ٹو کیس: بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف مزید گواہوں کے بیانات قلمبند
توشہ خانہ ٹو کیس: بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف مزید گواہوں کی شہادتیں قلمبند، سماعت 8 ستمبر تک ملتوی
راولپنڈی – پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کے ایک اہم اور زیر بحث مقدمے "توشہ خانہ ٹو کیس” میں ایک اور پیش رفت سامنے آئی ہے۔ سپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کیس کی سماعت کی، جس کے دوران مزید دو گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 8 ستمبر 2025 تک ملتوی کر دی ہے۔
یہ کیس ملک کے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف زیرِ سماعت ہے، جس میں ان پر توشہ خانہ سے تحائف کی فروخت اور ان کی مبینہ بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں۔
جیل میں عدالتی کارروائی، اہم شخصیات کی موجودگی
مقدمے کی سماعت حسبِ سابق اڈیالہ جیل میں ہی کی گئی، جہاں عدالت نے جیل کو کمرہ عدالت میں تبدیل کر رکھا ہے تاکہ سیکیورٹی خدشات اور عوامی ہجوم سے بچا جا سکے۔ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر بانی پی ٹی آئی کی دونوں بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان بھی کمرہ عدالت میں موجود رہیں، جن کی موجودگی نے ایک ذاتی اور جذباتی پہلو بھی سماعت میں شامل کر دیا۔
گواہان کے بیانات: مزید دو شہادتیں قلمبند
عدالتی کارروائی کے دوران دو اہم گواہوں نے اپنا بیان قلمبند کرایا:
پرنسپل اپریزر کسٹمز، ثنا سعید
اے ڈی سی جی ہیڈ کوارٹر، عبداللہ خان
یہ دونوں گواہان حکومتی اداروں کے اہم افسران ہیں اور ان کے بیانات کو کیس میں کلیدی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ یہ وہ افراد ہیں جو توشہ خانہ سے متعلقہ ریکارڈ، تحائف کی مالیت، ان کی خریدو فروخت اور ٹیکس و کسٹمز دستاویزات سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ تحائف کی مالیت، تخمینہ، قانونی طریقہ کار اور ان کے بعد کی فروخت کے حوالے سے تمام تفصیلات ریکارڈ پر لائی گئی ہیں۔
گواہان کی مجموعی صورتحال
اب تک کیس میں:
13 گواہان کی شہادتیں قلمبند کی جا چکی ہیں
ان میں سے 11 پر جرح مکمل ہو چکی ہے
یہ تعداد ظاہر کرتی ہے کہ کیس اپنی آخری مراحل کی طرف بڑھ رہا ہے، تاہم دفاعی وکلاء کی جانب سے جرح کے بعد بھی ممکنہ قانونی چالوں اور درخواستوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔
کیس کا پس منظر: توشہ خانہ کیا ہے؟
توشہ خانہ ایک سرکاری ادارہ ہے جو حکومتی سربراہان اور اعلیٰ عہدیداروں کو بیرونی ممالک سے ملنے والے تحائف کو جمع کرتا ہے۔ قانون کے مطابق، کوئی بھی تحفہ مخصوص قانونی طریقہ کار اور قیمت کے تعین کے بعد ہی نجی ملکیت میں لیا جا سکتا ہے۔
توشہ خانہ ٹو کیس میں الزام یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ نے ملنے والے قیمتی تحائف کو مبینہ طور پر کم قیمت پر خرید کر مہنگے داموں فروخت کیا، اور اس سارے عمل میں کئی قانونی ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی۔
عوامی اور سیاسی ردعمل
یہ کیس نہ صرف عدالتی سطح پر بلکہ سیاسی میدان میں بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ تحریک انصاف کے حمایتیوں کا مؤقف ہے کہ یہ کیس سیاسی انتقام پر مبنی ہے، جبکہ حکومت اور مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ احتساب کا عمل سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، چاہے وہ سابق وزیراعظم ہی کیوں نہ ہوں۔
سوشل میڈیا پر اس کیس کی ہر پیش رفت پر تبصرے کیے جا رہے ہیں، اور مختلف طبقات اپنے اپنے نظریات کی روشنی میں اسے ملکی سیاست کا رخ موڑنے والا مقدمہ قرار دے رہے ہیں۔
بشریٰ بی بی کی موجودگی اور قانونی حیثیت
بشریٰ بی بی، جو کہ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ اور ملک کی سابق خاتون اول رہ چکی ہیں، اس مقدمے میں بطور شریک ملزمہ پیش کی جا رہی ہیں۔ ان پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کو ذاتی ملکیت میں لے کر فروخت یا استعمال کیا، اور اس حوالے سے قانون کی خلاف ورزی کی۔
ان کی عدالت میں پیشی اور کیس میں فعال موجودگی اس مقدمے کو مزید سنجیدہ اور پیچیدہ بنا دیتی ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ خواتین کا عدالتی نظام میں براہ راست شامل ہونا ایک حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔
قانونی ماہرین کا مؤقف
کئی قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گواہوں کے بیانات اور ریکارڈ شدہ شواہد سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ تحائف کی قیمتیں جان بوجھ کر کم ظاہر کی گئیں، یا ان کی فروخت کے عمل میں مالی فائدہ حاصل کیا گیا، تو یہ نہ صرف توشہ خانہ قواعد کی خلاف ورزی ہو گی بلکہ یہ بدعنوانی کے زمرے میں بھی آ سکتا ہے۔
تاہم، دفاعی وکلاء کا دعویٰ ہے کہ تمام معاملات قانونی طریقے سے انجام دیے گئے، اور کیس صرف سیاسی دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔
آئندہ سماعت: 8 ستمبر کو فیصلہ کن موڑ؟
عدالت نے سماعت کو 8 ستمبر 2025 تک ملتوی کر دیا ہے، جو ممکنہ طور پر کیس میں ایک اہم اور فیصلہ کن دن ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر باقی گواہوں کے بیانات مکمل ہو جاتے ہیں تو جرح، دلائل، اور پھر فیصلہ کی طرف پیش رفت تیز ہو سکتی ہے۔
یہ بھی امکان ہے کہ عدالت ملزمان کو اپنے دفاع میں شواہد پیش کرنے یا گواہان بلانے کی اجازت دے، جس کے بعد کیس کا رخ بدل بھی سکتا ہے۔
عوامی سطح پر اہم سوالات
کیا توشہ خانہ کے قوانین میں موجود ابہام اس کیس کو کمزور بنائیں گے؟
بانی پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ پر اس مقدمے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
کیا عدالتی فیصلے سے دیگر سیاستدانوں پر بھی اثر پڑے گا؟
کیا یہ کیس مستقبل میں پاکستان میں شفاف حکمرانی اور احتساب کے لیے مثال بنے گا؟
توشہ خانہ ٹو کیس ملکی سیاست، قانون، میڈیا اور عوامی رائے کے درمیان ایک نکتۂ مرکز بن چکا ہے۔ عدالت کی ہر سماعت نئے سوالات اور امکانات کو جنم دے رہی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ کیس سیاسی منظرنامے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہیں دوسری طرف یہ پاکستان میں قانون کی بالادستی اور احتساب کے معیار کے امتحان کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
اب سب کی نظریں 8 ستمبر کی سماعت پر جمی ہیں، جہاں یہ طے ہو گا کہ انصاف کی اس راہ پر اگلا قدم کیا ہو گا، اور کیا بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی اس مقدمے سے بری الزمہ قرار پائیں گے یا قانون کے شکنجے میں آئیں گے؟
