عمران خان کا سیلاب متاثرین کے لیے جیل سے اہم پیغام جاری
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر قائدین — شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید، اور عمر سرفراز چیمہ — اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں۔ ان رہنماؤں نے ایک مشترکہ خط میں انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے جیل سے پیغام دیا ہے کہ:
"اس وقت تمام سیاسی کام چھوڑ کر سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے۔”
یہ پیغام نہ صرف پارٹی کے کارکنوں بلکہ پوری قوم کے لیے ایک اپیل ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ذاتی مفادات نہیں، قومی یکجہتی اہم ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں: حقیقت کیا ہے؟
خط کے مطابق، پنجاب کے 25 اضلاع اس وقت شدید ترین سیلاب کی لپیٹ میں ہیں، جب کہ خیبر پختونخوا میں بھی صورت حال قابو میں آ چکی ہے مگر بحالی کا عمل ابھی جاری ہے۔
اہم نکات:
25 سے 30 لاکھ افراد براہِ راست متاثر ہو چکے ہیں۔
اگلے 2 دنوں میں یہ تعداد دگنی ہو سکتی ہے (یعنی 50 سے 60 لاکھ افراد متاثر ہونے کا خدشہ)۔
صرف 60 تا 70 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے، جو متاثرہ افراد کی تعداد کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔
گندم، چاول، مکئی، الو، کپاس اور سبزیاں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔
گندم کی قیمت دگنی ہو گئی ہے۔
یہ تمام حقائق ایک قومی ایمرجنسی کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کا مقابلہ صرف اور صرف بھرپور اجتماعی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔
حکومت کی کارکردگی: شدید تنقید
خط میں موجودہ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ رہنماؤں کے مطابق:
"یہ سب کچھ حکومت پنجاب کی ناقص حکمت عملی اور بے حسی کا نتیجہ ہے۔”
حکومت پر الزامات:
پیشگی انتظامات نہ کیے گئے۔
ریلیف اور ریسکیو کا عمل سست اور ناکافی رہا۔
سیلاب کی شدت کا اندازہ ہونے کے باوجود کوئی مربوط حکمت عملی نہ بنائی گئی۔
متاثرین کی مناسب نقل مکانی، خوراک، اور طبی امداد فراہم نہ کی جا سکی۔
یہ الزامات نہ صرف سیاسی ہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر بھی نہایت سنگین نوعیت کے ہیں، کیونکہ ان کا براہ راست اثر لاکھوں افراد کی زندگی اور بقا پر پڑا ہے۔
بھارت کی مبینہ آبی جارحیت: ایک اور محاذ
خط میں بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رہنماؤں نے کہا:
"بھارت مسلسل جارحیت کر رہا ہے، اور وفاقی سطح پر اس کا سد باب نہ کرنا جیتی جنگ ہارنے کے مترادف ہے۔”
بھارت پر الزام:
بغیر اطلاع دیے دریاؤں میں پانی چھوڑا جا رہا ہے۔
پاکستان کی آبی گزرگاہوں پر دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت اس خطرے کا مؤثر جواب دینے میں ناکام رہی ہے۔
یہ بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سیلاب صرف قدرتی آفت نہیں بلکہ پالیسی و حکومتی ناکامی کا مجموعہ بن چکا ہے۔
عمران خان کی ہدایت: "سیاست بعد میں، انسانیت پہلے”
سیاسی قیدی ہونے کے باوجود عمران خان کی یہ ہدایت کہ:
"تمام کام چھوڑ کر سیلاب زدگان کی مدد کی جائے”
ایک مثالی انسانی رویہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب:
سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈالنا چاہیے؛
تمام سیاسی جماعتوں، اداروں، این جی اوز، اور سوسائٹی کو متحد ہو کر کام کرنا چاہیے؛
میڈیا کو بھی ریٹنگ کی دوڑ سے نکل کر ریلیف کے کاموں کی کوریج کو ترجیح دینی چاہیے۔
سیاسی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کی ضرورت
یہ خط ایک عملی اپیل بھی ہے کہ موجودہ حالات میں:
سیاسی جماعتیں وقتی طور پر اپنی سرگرمیاں معطل کریں؛
حکومت، اپوزیشن اور ادارے ایک ٹیبل پر بیٹھ کر ریلیف پلان تشکیل دیں؛
فوج، رینجرز، اور پولیس کو مکمل اختیار دیا جائے تاکہ بروقت ریسکیو آپریشن کیے جا سکیں؛
انٹرنیشنل این جی اوز اور اقوام متحدہ سے مدد طلب کی جائے؛
رضاکارانہ تنظیمیں اور طلبہ ریلیف کیمپوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
معاشی بحران اور زرعی تباہی: ایک طویل المدتی خطرہ
سیلاب صرف ایک وقتی آفت نہیں بلکہ یہ معاشی زوال کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔
خدشات:
فصلوں کی تباہی سے زرعی معیشت تباہ ہو جائے گی؛
اشیائے خوردونوش کی قلت اور مہنگائی کا شدید طوفان آئے گا؛
لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے؛
دیہی معیشت مکمل طور پر بیٹھ جائے گی؛
خوراک کی درآمد پر انحصار بڑھے گا، جس سے زرمبادلہ پر بوجھ پڑے گا۔
یہ سب خطرات بتاتے ہیں کہ اگر فوری اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو یہ سیلاب صرف پانی کا نہیں، بلکہ بدترین معاشی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
وقت کا تقاضا — متحد ہو کر انسانیت بچائیں
کوٹ لکھپت جیل سے لکھا گیا پی ٹی آئی رہنماؤں کا یہ خط محض ایک سیاسی بیان نہیں، بلکہ ایک قومی بیداری کا پیغام ہے۔ عمران خان کی طرف سے آنے والا پیغام کہ:
"تمام کام چھوڑ کر متاثرین کی مدد کریں”
یہ ظاہر کرتا ہے کہ حقیقی قیادت وہی ہے جو مشکل وقت میں قوم کو متحد کرے، حوصلہ دے، اور عملی اقدام کا مشورہ دے۔
یہ وہ وقت ہے جب سیاستدان، کارکن، عوام، فوج، حکومت، اور تمام ادارے ایک ہی کاز کے لیے اکٹھے ہو جائیں — متاثرینِ سیلاب کی فوری امداد اور بحالی۔
سیلاب آتا ہے، گزر بھی جاتا ہے…
۔
لیکن قوم کی غیرت، اتحاد اور انسانی ہمدردی کا امتحان ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے
"آئیے سیاست نہیں، انسانیت بچائیں — اور تاریخ میں اپنا نام زندہ رکھیں۔"

