اسلام آباد میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی عائد
پاکستان میں بچوں کے حقوق اور تعلیم کا معیار ہمیشہ ایک اہم بحث کا موضوع رہا ہے۔ حال ہی میں وفاقی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (FDE) نے ایک تاریخی اقدام اٹھایا ہے جس کے تحت اسلام آباد میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے کو والدین، طلبہ اور ماہرین تعلیم کی جانب سے ایک مثبت قدم کے طور پر سراہا جا رہا ہے کیونکہ یہ اقدام بچوں کو محفوظ، مثبت اور صحت مند تعلیمی ماحول فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
قانونی حکم اور پس منظر
پاکستانی قوانین کے مطابق بچوں کو جسمانی سزا دینا پہلے ہی ممنوع تھا، لیکن عملی سطح پر اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے FDE نے سیکشن 3(2) کے تحت اعلان کیا کہ اسلام آباد میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی (Corporal punishment banned in educational institutions in Islamabad) اب باضابطہ طور پر نافذ ہوگی اور اس کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔
یہ فیصلہ نہ صرف ملکی قانون کی پاسداری ہے بلکہ عالمی سطح پر بچوں کے حقوق کی حفاظت کے وعدے کا بھی عکاس ہے۔
جسمانی سزا کے نقصانات
ماہرین نفسیات کے مطابق جسمانی سزا بچوں کی شخصیت اور ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ اس سے بچے خوف زدہ ہو جاتے ہیں، ان میں اعتماد کی کمی آتی ہے اور ان کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
- بچے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے ڈرتے ہیں۔
- ان میں غصہ اور بغاوت کے رجحانات بڑھتے ہیں۔
- تعلیم سے دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔
- نفسیاتی بیماریاں پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
یہ تمام وجوہات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اسلام آباد میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
FDE کے احکامات اور عملی اقدامات
وفاقی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن نے اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات کی ہدایات جاری کی ہیں:
- ہر تعلیمی ادارے میں فعال ایکشن کمیٹیاں قائم کی جائیں۔
- کمیٹیوں کی تفصیلات نمایاں بینرز پر آویزاں کی جائیں۔
- طلبہ اور والدین کو آگاہی دینے کے لیے سیمینارز منعقد ہوں۔
- 13 ستمبر کو تمام اسکولز میں لازمی آگاہی سیشنز کرائے جائیں۔
- خلاف ورزی کی صورت میں ادارے کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
یہ اقدامات اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اسلام آباد میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی صرف کاغذی اعلان نہ رہے بلکہ عملی حقیقت بن جائے۔
والدین کا کردار
والدین بچوں کے سب سے بڑے محافظ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی والدین دیکھیں کہ ان کے بچے کو اسکول میں جسمانی سزا دی جا رہی ہے تو وہ فوری طور پر FDE یا متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔ والدین کا یہ کردار اس بات کو یقینی بنانے میں مدد دے گا کہ اسلام آباد میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی ہر سطح پر نافذ ہو۔
اساتذہ کی ذمہ داریاں اور تربیت
اساتذہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ وہ بچوں کی شخصیت سازی کے مثبت طریقے اپنائیں۔ حکومت اور FDE کو بھی لازمی طور پر اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرامز کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ وہ بغیر جسمانی سزا کے نظم و ضبط قائم رکھنے کی مہارت حاصل کر سکیں۔
عالمی مثالیں
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جسمانی سزا کو عرصہ دراز سے ختم کیا جا چکا ہے۔ یونیسف اور دیگر عالمی ادارے مسلسل یہ کہتے آ رہے ہیں کہ جسمانی سزا بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام آباد میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی پاکستان کو دنیا کے ان ممالک کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے جو بچوں کے حقوق کے لیے سنجیدہ ہیں۔
آگاہی مہمات
یہ پابندی اس وقت زیادہ مؤثر ہوگی جب عوامی سطح پر آگاہی مہمات چلائی جائیں۔ اسکولوں میں پوسٹرز، سیمینارز، ڈرامے اور ورکشاپس کے ذریعے طلبہ اور والدین کو بتایا جانا چاہیے کہ جسمانی سزا کیوں نقصان دہ ہے اور اس کے متبادل طریقے کیا ہیں۔
مستقبل کا لائحہ عمل
یہ فیصلہ صرف ایک شروعات ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قانون پر مکمل اور سختی سے عمل درآمد ہو، تعلیمی ادارے بچوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنیں اور والدین کو بھی اعتماد ہو کہ ان کے بچے اسکول میں خوش اور محفوظ ہیں۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی بچوں کے حقوق اور محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ اگر اس پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کیا جائے تو یہ اقدام تعلیمی نظام میں ایک مثبت انقلاب کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا مری کے تعلیمی اداروں کا دورہ، طلبہ و اساتذہ سے ملاقات
