نیپال میں بدامنی: 13 ہزار 500 قیدی جیلوں سے فرار
نیپال شدید سیاسی بحران کا شکار: حکومت مخالف مظاہرے، پارلیمنٹ نذر آتش، 13,500 قیدی جیلوں سے فرار
نیپال اس وقت ایک ایسے سیاسی و سماجی بحران کا سامنا کر رہا ہے، جس کی مثال پچھلی دو دہائیوں میں نہیں ملتی۔ سوشل میڈیا پر پابندی اور بدعنوانی کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے ملک گیر تحریک میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ کو نذر آتش کر دیا، وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا، اور ملک کی جیلوں سے 13,500 سے زائد قیدی فرار ہو گئے ہیں۔ یہ واقعات نیپال میں حکومتی رٹ، امن و امان، اور آئینی ڈھانچے کے زوال کی واضح علامت بن چکے ہیں۔
پُرتشدد مظاہروں کا آغاز: سوشل میڈیا پر پابندی اور بدعنوانی کے خلاف آواز
مظاہروں کا آغاز پیر کے روز کھٹمنڈو میں اس وقت ہوا جب حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کر دی۔ حکومتی مؤقف کے مطابق یہ اقدام "جعلی خبروں اور ریاست مخالف پروپیگنڈا” کی روک تھام کے لیے اٹھایا گیا، لیکن عوام نے اسے آزادیٔ اظہار رائے پر حملہ قرار دیا۔
عوامی غصہ کیوں بھڑکا؟
مہنگائی اور معاشی بدحالی
روزگار کے مواقع نہ ہونا
سرکاری بدعنوانی میں اضافہ
حکومت کا آمرانہ رویہ
یہ تمام عوامل پہلے ہی عوام کے اندر غصے کو جنم دے چکے تھے، سوشل میڈیا پر پابندی نے بس چنگاری کو آگ میں بدل دیا۔
جیلوں سے قیدیوں کا فرار – قانون کی دھجیاں اڑ گئیں
پیر اور منگل کی درمیانی رات ملک بھر میں پُرتشدد مظاہروں نے شدت اختیار کی۔ مشتعل افراد نے مختلف شہروں میں جیلوں پر حملہ کیا اور 13,500 سے زائد قیدیوں کو رہا کرا لیا۔
پولیس ترجمان بنود گھمائرے کا بیان:
"ملک بھر میں جیلوں پر منظم حملے کیے گئے، جن میں تین پولیس اہلکار شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ کچھ جیلوں کو مکمل طور پر جلا دیا گیا۔”
خطرناک مجرموں کی رہائی:
فرار ہونے والے قیدیوں میں:
سزائے موت کے قیدی
دہشتگردی، قتل اور جنسی جرائم کے ملزمان
بدعنوانی اور مالی جرائم میں ملوث افراد
بھی شامل ہیں، جو اب آزاد ہو کر معاشرے کے لیے نئی خطرناک لہر بن سکتے ہیں۔
وزیراعظم کا استعفیٰ – سیاسی خلا میں داخلہ
شدت اختیار کرتے مظاہروں کے دوران مظاہرین نے نہ صرف پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگا دی بلکہ وزیراعظم کی رہائش گاہ کا بھی گھیراؤ کیا۔ حالات قابو سے باہر دیکھ کر وزیراعظم نے بدھ کی صبح استعفیٰ دے دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق:
وزیراعظم کا استعفیٰ عوامی دباؤ کے تحت تھا
فوج نے بھی سیاسی مداخلت سے اجتناب کیا
اس وقت حکومت عبوری نظام کے تحت چل رہی ہے
فوج کی تعیناتی – کھٹمنڈو کی سڑکیں میدان جنگ بن گئیں
بدھ کے روز دارالحکومت کھٹمنڈو میں فوجی دستے تعینات کیے گئے۔ سڑکوں پر بکتر بند گاڑیاں، واٹر کینن، اور مسلح اہلکار گشت کرتے دکھائی دیے۔
فوج کا اعلامیہ:
"ہم عوام پر فائرنگ نہیں کریں گے، لیکن ریاستی اداروں پر حملہ یا قانون شکنی کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔”
اس وقت ملک کے متعدد حصے فوجی کنٹرول میں ہیں، اور کرفیو بھی نافذ کیا گیا ہے۔
سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش، بدامنی کی نئی لہر
مظاہرین نے صرف پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ:
- پولیس اسٹیشنز
- وزارتی دفاتر
- سرکاری اسکولز
- جیل کی عمارات
کو بھی نشانہ بنایا۔ 25 افراد کی ہلاکت کی سرکاری تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق یہ تعداد 40 سے زائد ہو سکتی ہے۔
نیپال کی سیاسی تاریخ میں سیاہ باب
یہ مظاہرے نیپال کی سیاسی تاریخ میں:
- بادشاہت کے خاتمے
- ماؤ نواز بغاوت
- جمہوریت کی بحالی
جیسے اہم واقعات کے بعد سب سے بڑا ریاستی بحران قرار دیے جا رہے ہیں۔
ماہرین کا تجزیہ:
یہ ایک "انارکی کی جانب پیش قدمی” ہے
حکومتی ادارے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں
بین الاقوامی مداخلت کا خطرہ بڑھ رہا ہے
بین الاقوامی ردعمل – تشویش، مذمت اور سفارتی کوششیں
اقوامِ متحدہ:
"ہم نیپال میں جمہوری اداروں کی بحالی، انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ تمام فریقین کو پرامن راستہ اختیار کرنا ہوگا۔”
بھارت:
"نیپال میں امن و استحکام جنوبی ایشیا کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم صورتحال کا باریکی سے جائزہ لے رہے ہیں۔”
چین:
"نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، لیکن حکومت کی بحالی کے لیے سفارتی حمایت فراہم کریں گے۔”
سوشل میڈیا کی طاقت – بغاوت کی بنیاد؟
سوشل میڈیا پر پابندی مظاہروں کی بنیاد بنی، مگر یہی پلیٹ فارم اب:
- عوامی شعور
- تنظیم سازی
- تحریک کا بیانیہ
فراہم کر رہا ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر ٹویٹر، فیس بک، اور انسٹاگرام کے ذریعے اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔
آگے کیا ہوگا؟ – ملک کے لیے 5 بڑے خطرات
سیاسی خلا: مستقل حکومت کے بغیر آئینی عمل معطل ہو سکتا ہے
جرائم میں اضافہ: 13,500 قیدیوں کا فرار داخلی سلامتی کے لیے تباہ کن ہے
اقتصادی بحران: غیر یقینی صورتحال میں سرمایہ کاری اور معیشت تباہ ہو سکتی ہے
علاقائی تناؤ: بھارت، چین اور دیگر ممالک کا دباؤ بڑھ سکتا ہے
شہری حقوق کی پامالی: کرفیو، گرفتاریوں اور سوشل میڈیا پر پابندی سے حقوق متاثر ہو رہے ہیں
نیپال ایک نازک دوراہے پر
نیپال اس وقت جمہوریت، ریاستی استحکام، اور شہری آزادیوں کے سنگم پر کھڑا ہے۔ عوام نے بدعنوانی اور جبر کے خلاف آواز اٹھائی، لیکن حکومت کی ناکامی اور ریاستی اداروں کی کمزوری نے اس احتجاج کو ایک تباہ کن بغاوت میں بدل دیا۔
اب نہ صرف حکومت بلکہ بین الاقوامی برادری کو بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نیپال کو انارکی، خانہ جنگی یا غیر ملکی مداخلت سے بچایا جا سکے۔

Comments 1