اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا ایمان مزاری سے مکالمہ — توہینِ عدالت کی کارروائی کا امکان
اسلام آباد:– اسلام آباد ہائی کورٹ میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ایک ایسا مکالمہ دیکھنے میں آیا جس نے نہ صرف کمرہ عدالت میں موجود افراد کو حیران کر دیا بلکہ عدلیہ اور وکلا کے تعلقات، آزادیٔ اظہار اور توہینِ عدالت جیسے حساس موضوعات پر ایک نئی بحث بھی چھیڑ دی۔ اس مکالمے میں نامور وکیل اور انسانی حقوق کی علمبردار ایمان زینب مزاری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر آمنے سامنے نظر آئے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بلوچستان کی ایک نامور انسانی حقوق کی کارکن ہیں، جو رواں برس مارچ سے حراست میں ہیں۔ ان پر مختلف الزامات عائد کیے گئے جنہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ان کے وکلا بلاجواز قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ کا نام حکومت کی جانب سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا گیا تھا، جس کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی گئی۔ اسی کیس میں ایمان مزاری بحیثیت وکیل عدالت میں پیش ہوئیں۔
کمرہ عدالت کا ماحول اور چیف جسٹس کا ایمان مزاری سے مکالمہ
سماعت کے دوران فضا غیر معمولی حد تک سنجیدہ رہی۔ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے دورانِ سماعت ریمارکس دیے:
“اگر میں اس کیس میں کوئی حکم جاری کروں تو مس مزاری نیچے جا کر پروگرام کریں گی کہ ایک ڈکٹیٹر بیٹھا ہے۔”
یہ ریمارکس سن کر ایمان مزاری نے فوراً وضاحت کی کہ انہوں نے کبھی ایسی بات نہیں کی جو قانون سے باہر ہو۔ ان کے بقول، ان کی گفتگو ذاتی حیثیت میں تھی اور اس کا مقدمے پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس نے انہیں ادب اور احتیاط سے گفتگو کرنے کی تلقین کی۔
ایمان مزاری نے کہا:
“جو میں نے کہا وہ ذاتی حیثیت میں کہا تھا، اس کا مؤکل کے کیس پر اثر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو میرے بارے میں کوئی تعصب ہے تو مؤکل کا کیس متاثر نہ ہونے دیں۔ میں ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ بطور وکیل عدالت میں آئی ہوں۔”
توہینِ عدالت کی کارروائی کی تنبیہ
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے اپنے ریمارکس میں کہا:
“آپ نے تبصرہ کیا کہ میں جج نہیں بلکہ ڈکٹیٹر کے طور پر بیٹھا ہوں، کیا ہمیں آپ کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع نہیں کرنی چاہیے؟”
اس پر ایمان مزاری نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آئین اور قانون کی حدود سے باہر کچھ نہیں کہا۔ ان کے بقول:
“اگر آپ کارروائی کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں۔ آئین نے مجھے اظہارِ رائے کی آزادی دی ہے اور میں نے وہی استعمال کی ہے۔”
جج اور وکیل کے درمیان تلخی
سماعت کے دوران ماحول اس وقت مزید کشیدہ ہوا جب چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ایمان مزاری کے شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“ہادی صاحب، انہیں سمجھائیں، اگر کبھی میرے ہاتھ آ گئیں تو…”
اس پر ایمان مزاری نے طنزیہ انداز میں کہا:
“اگر عدالتیں وکلا کو دھمکانے کے مرحلے پر آ گئی ہیں تو پھر توہینِ عدالت کی کارروائی کر لیں۔”
چیف جسٹس کا ایمان مزاری سے مکالمہ کمرہ عدالت میں موجود حاضرین کے لیے حیرت کا باعث بنا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ فل کورٹ اجلاس سے قبل جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ پیش کردی
قانونی پہلو اور اظہارِ رائے کی آزادی
چیف جسٹس کا ایمان مزاری سے مکالمہ اس اہم سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا ایک وکیل عدالت کے جج کو تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے یا نہیں؟ آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 شہریوں کو اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے لیکن اس آزادی کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے وقار کا تحفظ بھی لازمی ہے۔
ماہرین قانون کے مطابق، اگر کوئی وکیل جج کو “ڈکٹیٹر” کہے تو یہ عدلیہ کی توہین کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ تاہم، وکیل یہ مؤقف بھی اختیار کر سکتا ہے کہ یہ رائے ذاتی حیثیت میں دی گئی ہے، اس کا مقدمے سے تعلق نہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل کی رائے اور عدالتی فیصلہ
سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے سب سے پہلے وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی سے رجوع کرنا ہوگا۔ عدالت نے وکلا کو رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کی اور سماعت ملتوی کر دی۔
ماضی کی مثالیں
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں وکلا اور ججوں کے درمیان ایسے تلخ مکالمے پہلے بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں بھی وکلا کی جانب سے عدلیہ کے خلاف نعرے بازی اور احتجاج کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ تاہم، توہینِ عدالت کی کارروائیاں شاذ و نادر ہی انجام تک پہنچ سکیں۔
سیاسی اور سماجی ردعمل
چیف جسٹس کا ایمان مزاری سے مکالمہ اب سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ایمان مزاری کا لہجہ غیر مناسب تھا، جبکہ دیگر افراد کا ماننا ہے کہ جج صاحبان کو بھی اپنے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کرنی چاہیے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایمان مزاری کے مؤقف کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ اختلافِ رائے کو توہینِ عدالت کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا۔
ممکنہ نتائج اور اگلے مراحل
اگر عدالت (imaan mazari)ایمان مزاری کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرتی ہے تو یہ مقدمہ قانونی اور سیاسی طور پر طویل اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ اس سے ایک طرف عدلیہ کے وقار پر سوال اٹھیں گے، دوسری جانب آزادیٔ اظہار اور وکلا کے کردار پر بھی نئی بحث چھڑ جائے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس کا ایمان مزاری سے مکالمہ عدلیہ اور وکلا کے تعلقات کی نزاکت کو واضح کرتا ہے۔ ایک طرف عدلیہ کا احترام ضروری ہے، دوسری طرف وکلا کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے مؤکل کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اظہارِ رائے کی آزادی کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے استعمال کریں۔ یہ معاملہ آنے والے دنوں میں نہ صرف عدالتوں بلکہ سیاسی اور عوامی حلقوں میں بھی بحث کا مرکز رہے گا۔
