امریکی قدامت پسند رہنما چارلی کرک یوٹا میں ایک تقریب کے دوران قتل — سیاسی تشدد کی نئی لہر
واشنگٹن:– امریکہ میں سیاسی تشدد کا ایک اور افسوسناک واقعہ اس وقت رونما ہوا جب معروف قدامت پسند رہنما اور ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے (Turning Point USA) کے بانی و سی ای او چارلی کرک کو یوٹا کی ایک یونیورسٹی میں تقریب کے دوران فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ یہ واقعہ بدھ، 10 ستمبر 2025 کو یوٹاہ ویلی یونیورسٹی (Utah Valley University) میں پیش آیا، جہاں ہزاروں طلبہ و شہری شریک تھے۔ گورنر اسپینسر کاکس نے اسے کھلے الفاظ میں "سیاسی قتل” قرار دیا، جس نے امریکہ میں پہلے سے موجود سیاسی تقسیم اور تشدد کے خطرات کو مزید اجاگر کردیا ہے۔
عینی شاہدین اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز کے مطابق چارلی کرک اسٹیج پر بیٹھے سامعین کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ وہ اپنے مشہور جملے "The American Comeback” والے بینر کے نیچے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ایک گولی چلنے کی آواز آئی۔
گولی سیدھی کرک کی گردن پر لگی اور وہ خون میں لت پت زمین پر گر پڑے۔ فضا میں چیخ و پکار اور بھگدڑ مچ گئی۔ تقریب میں موجود تقریباً 3,000 افراد خوفزدہ ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔
پولیس کے مطابق گولی کسی قریبی عمارت کی چھت سے چلائی گئی تھی۔ حملہ آور سیاہ لباس میں ملبوس تھا اور واردات کے فوراً بعد فرار ہوگیا۔ ابتدائی طور پر دو افراد کو حراست میں لیا گیا لیکن تفتیش کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔ تاحال کوئی بھی شخص باقاعدہ گرفتار نہیں ہوسکا۔
گورنر اور حکام کا ردعمل
یوٹاہ کے گورنر اسپینسر کاکس نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا:
"یہ یوٹاہ کے لیے ایک سیاہ دن ہے، اور ہماری قوم کے لیے ایک سانحہ ہے۔ یہ ایک واضح سیاسی قتل ہے اور ہم قاتل کو قانون کے مطابق سخت ترین سزا دیں گے۔”
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ یوٹاہ میں سزائے موت رائج ہے اور اگر ملزم پکڑا گیا تو "انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے”۔
یونیورسٹی نے فوری طور پر کیمپس کو بند کر کے طلبہ کو نکالا اور آئندہ کے تمام کلاسز غیر معینہ مدت تک منسوخ کر دیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل
سابق صدر اور موجودہ ریپبلکن رہنما ڈونلڈ ٹرمپ، جو چارلی کرک کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے، نے ایک بیان میں کہا:
"چارلی کرک ایک عظیم اور افسانوی رہنما تھے۔ وہ سچ اور آزادی کے لیے شہید ہوئے ہیں۔ یہ حملہ دراصل ہمارے قدامت پسند اقدار پر حملہ ہے۔”
بعد ازاں ٹرمپ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے اس قتل کا الزام "ریڈیکل لیفٹ” کی اشتعال انگیز سیاست پر ڈالا۔
ڈیموکریٹ رہنماؤں کا ردعمل
یہ واقعہ صرف ریپبلکن ہی نہیں بلکہ ڈیموکریٹ رہنماؤں کے لیے بھی صدمے کا باعث بنا۔
کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے کہا:
"چارلی کرک پر حملہ شرمناک، گھناونا اور ناقابلِ برداشت ہے۔ ہمیں سیاسی اختلافات کو کبھی بھی تشدد کی شکل اختیار نہیں کرنے دینا چاہیے۔”
سابق کانگریس ویمن گیبریل گِفورڈز، جو خود 2011 میں ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئی تھیں، نے کہا کہ یہ سانحہ ان کے دل کو توڑ گیا ہے۔
اسرائیلی ردعمل
نتن یاہو نے کہا کہ چارلی کرک کو ’’سچ بولنے اور آزادی کا دفاع کرنے کی پاداش میں قتل کیا گیا‘‘۔ ان کے مطابق کرک اسرائیل کے ایک مخلص دوست تھے اور حالیہ دنوں میں انھیں اسرائیل کے دورے کی دعوت بھی دی گئی تھی جو اب ممکن نہ ہو سکی۔
خیال رہے کہ چارلی کرک غزہ اور اسرائیل سے متعلق سخت مؤقف رکھتے تھے اور اکثر اسرائیلی اقدامات کا دفاع کرتے تھے۔ رواں سال جولائی میں بھی انہوں نے غزہ میں انسانی بحران اور بھوک کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔
چارلی کرک کون تھے؟
چارلی کرک نے صرف 18 برس کی عمر میں Turning Point USA قائم کیا تھا۔ یہ ایک قدامت پسند طلبہ تنظیم ہے جو امریکہ میں نوجوانوں کو ریپبلکن پارٹی اور قدامت پسند اقدار کی طرف راغب کرتی ہے۔
وہ صدر ٹرمپ اور ان کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔
وہ اکثر ٹی وی پروگراموں میں "کلچر وارز” یعنی ثقافتی جنگوں پر سخت مؤقف اختیار کرتے تھے۔
کرک کی عمر صرف 31 برس تھی اور وہ دو بچوں کے والد تھے۔
میکسیکو گیس ٹینکر دھماکہ: 3 ہلاک، درجنوں زخمی اور گاڑیاں تباہ
سیاسی تشدد کی بڑھتی لہر
امریکہ میں حالیہ برسوں میں سیاسی تشدد کے کئی بڑے واقعات رونما ہوچکے ہیں:
2024 میں ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابی ریلی میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔
2025 میں ہی ایک ڈیموکریٹک ریاستی رکن اسمبلی اور ان کے شوہر کو گھر میں قتل کردیا گیا۔
مختلف مقامات پر فائر بم حملے اور پرتشدد احتجاج دیکھنے میں آئے۔
یہ تمام واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ میں سیاسی اختلافات اب خطرناک اور خونریز تصادم کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔
سیکیورٹی پر سوالات
تقریب میں موجود سابق کانگریس مین جیسن چیفیٹز نے میڈیا کو بتایا کہ وہاں پولیس اور سیکیورٹی کی موجودگی ناکافی تھی:
"یہ یوٹاہ ہے، دنیا کی سب سے محفوظ جگہ، لیکن یہاں بھی یہ سب ہوگیا۔ ہمیں اب اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی۔”
عوامی ردعمل
سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے چارلی کرک کے لیے تعزیتی پیغامات شیئر کیے۔ تاہم، کچھ حلقوں نے ان کے متنازعہ بیانات اور سخت گیر مؤقف کو بھی زیر بحث لایا۔ امریکہ میں سیاسی تقسیم اس واقعے کے بعد مزید گہری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
عالمی ردعمل
بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس قتل کو امریکی معاشرتی بگاڑ اور بڑھتے ہوئے تشدد کا عکاس قرار دیا۔ برطانوی اخبار "گارڈین” نے اسے "امریکی جمہوریت کے لیے ایک نیا خطرہ” کہا، جبکہ جرمن میڈیا نے لکھا کہ امریکہ میں "سیاسی تشدد روزمرہ کا معمول” بنتا جا رہا ہے۔
چارلی کرک (charlie kirk)کا قتل صرف ایک سیاسی رہنما کی موت نہیں بلکہ امریکہ کے جمہوری ڈھانچے کے لیے ایک سنگین سوال ہے۔ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے اندر پھیلتے تشدد کو روک پائے گی؟ یا پھر سیاسی اختلافات مزید خونریزی اور تقسیم کو جنم دیں گے؟
اس وقت سب کی نظریں امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہیں کہ وہ قاتل کو کب اور کیسے انصاف کے کٹہرے میں لاتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے: امریکہ میں سیاست اور تشدد کا ملاپ اب ایک خطرناک موڑ اختیار کر چکا ہے۔
Question for people who know private event security:
Is it normal to be doing like a steady stream of signals like that or is it as sus as it looks that they're doing it literally the moment before the shot? #CharlieKirkshot pic.twitter.com/fq6wsNkeDi
— Tankie Riel (@TankieRiel) September 11, 2025










Comments 2