پتنگ کی ڈور سے حادثہ: لاہور میں موٹر سائیکل سوار شدید زخمی، اسپتال منتقل
لاہور میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک نوجوان موٹر سائیکل سوار پتنگ کی ڈور سے حادثہ کا شکار ہو کر شدید زخمی ہو گیا۔ واقعہ سمن آباد کے علاقے میں پیش آیا جہاں شہری اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مصروف تھے لیکن اچانک ہوا میں اُڑتی پتنگ کی ڈور نے ایک اور زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔
واقعے کی تفصیلات
پولیس کے مطابق زخمی نوجوان کی شناخت مدثر ولد نذر حسین کے نام سے ہوئی ہے، جو اپنی موٹر سائیکل پر سمن آباد سینٹرل ماڈل اسکول کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اچانک ایک تیز دھار پتنگ کی ڈور سے حادثہ پیش آیا جس نے اس کے گلے اور کان کو کاٹ دیا۔ واقعے کے نتیجے میں مدثر کا کان بری طرح زخمی ہو گیا جبکہ موٹر سائیکل گرنے سے اس کے جسم کے دیگر حصے بھی متاثر ہوئے۔ عینی شاہدین نے فوری طور پر زخمی کو قریبی اسپتال منتقل کیا جہاں اس کا علاج جاری ہے۔
پتنگ بازی پر پابندی اور اس کے باوجود حادثات
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ لاہور یا دیگر شہروں میں پتنگ کی ڈور سے حادثہ پیش آیا ہو۔ سپریم کورٹ اور پنجاب حکومت کی جانب سے بارہا پتنگ بازی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی سختی کے باوجود اکثر علاقوں میں یہ کھیل خفیہ طور پر جاری رہتا ہے۔
پتنگ بازی کے دوران استعمال ہونے والی ڈور خاص طور پر "کیمیائی ڈور” یا "دھاتی ڈور” انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ یہ ڈور اتنی تیز دھار ہوتی ہے کہ نہ صرف گلے کو کاٹ دیتی ہے بلکہ بعض اوقات انسانی جان بھی لے لیتی ہے۔
ماضی کے افسوسناک واقعات
گزشتہ سال فیصل آباد میں بھی ایک افسوسناک پتنگ کی ڈور سے حادثہ پیش آیا تھا جس میں 22 سالہ نوجوان آصف مشتاق جاں بحق ہو گیا تھا۔ وہ افطاری کا سامان لے کر گھر جا رہا تھا کہ اچانک اس کی گردن پر ڈور پھر گئی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ پتنگ کی ڈور سے حادثہ صرف چوٹ تک محدود نہیں رہتا بلکہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔
شہریوں میں خوف اور بے چینی
لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں ایسے واقعات نے شہریوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ والدین خاص طور پر اپنے بچوں کو اکیلے باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کب اور کہاں پتنگ کی ڈور سے حادثہ پیش آ جائے۔ موٹر سائیکل سوار، سائیکل چلانے والے اور راہگیر سب ہی خطرے میں ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری
پولیس کی جانب سے ہر سال دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ پتنگ بازی کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ ہر سال درجنوں افراد پتنگ کی ڈور سے حادثہ کا شکار ہو کر زخمی یا جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف چند روز کی کارروائی کافی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔
معاشرتی پہلو
پتنگ بازی کو پنجاب کی ثقافت کا ایک حصہ مانا جاتا ہے اور "باسنت” جیسے تہوار ماضی میں بڑے شوق سے منائے جاتے تھے۔ تاہم جب سے یہ شوق خطرناک شکل اختیار کر گیا اور پتنگ کی ڈور سے حادثہ عام ہونے لگے تو حکومت نے اس پر مکمل پابندی لگا دی۔ اگرچہ کچھ لوگ اب بھی خفیہ طور پر یہ کھیل کھیلتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں کئی گھروں کے چراغ بجھ چکے ہیں۔
اسپتالوں پر بوجھ
ہر سال موسم بہار اور گرمیوں میں اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں ایسے درجنوں مریض آتے ہیں جو پتنگ کی ڈور سے حادثہ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر نوجوان اور بچے شامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق کیمیکل ڈور کی وجہ سے زخم اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ فوری سرجری کرنی پڑتی ہے۔
حکومت اور عوام کی مشترکہ ذمہ داری
صرف حکومت پر الزام لگانا کافی نہیں۔ شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں پتنگ بازی کو روکیں اور اپنے بچوں کو اس خطرناک کھیل سے دور رکھیں۔ اگر کوئی بھی شخص دیکھے کہ اس کے علاقے میں پتنگ بازی ہو رہی ہے تو فوری طور پر پولیس کو اطلاع دے تاکہ مزید پتنگ کی ڈور سے حادثہ نہ ہو۔
پشاور: جعلی ویزے کا نیٹ ورک پکڑا گیا — 2 مسافر اور 3 ایجنٹس زیرِ حراست
لاہور کا حالیہ واقعہ اس بات کی ایک اور مثال ہے کہ پتنگ کی ڈور سے حادثہ کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک طرف زخمی نوجوان زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے تو دوسری طرف حکومت اور عوام کے سامنے سوال کھڑا ہے کہ آخر کب تک یہ خطرناک کھیل انسانی جانیں لیتا رہے گا۔ اگر واقعی ایسے واقعات پر قابو پانا ہے تو صرف پابندی نہیں بلکہ اس پر مکمل عملدرآمد اور سخت سزاؤں کا نفاذ ضروری ہے۔
Comments 1