ایمان مزاری لائسنس منسوخی کی کوشش، بار کونسل میں ریفرنس دائر
ایمان مزاری لائسنس منسوخی: حالات، الزامات اور قانونی پہلو
اسلام آباد: اسلام آباد بار کونسل میں ایمان مزاری لائسنس منسوخی کے لیے ایک تیسرے فریق نے ریفرنس دائر کیا ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ ایمان مزاری ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ریفرنس دائر کرنے والے، ایڈووکیٹ عدنان اقبال، نے درخواست کی ہے کہ ایمان مزاری کا مستقل وکالت کا لائسنس منسوخ کیا جائے اور ان کے خلاف باضابطہ انکوائری کی جائے۔
ریفرنس میں الزام ہے کہ ایمان مزاری بار بار ریاستی اداروں، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں، اور اہم سرکاری عہدیداروں کے خلاف “منفی مہم” چلاتی رہی ہیں۔ الزامات میں شامل ہیں:
الزامات کا خلاصہ
- ریاست مخالف تقریریں اور تقریبات میں شرکت
- سرکاری اداروں اور افسران کے خلاف توہین آمیز بیانات
- عقائد اور پروگراموں کے ذریعے ریاستی نظام سے بغاوت کے اشارے
یہ تمام دعوے ایمان مزاری لائسنس منسوخی کی بنیاد ہیں، جہاں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایسے اقدامات بار کی ساکھ اور قانون کے احترام کے منافی ہیں۔
قانونی دائرہ کار اور بار کونسل کا کردار
ریفرنس ایمان مزاری لائسنس منسوخی کی درخواست Legal Practitioners and Bar Councils Act 1973 کے تحت سیکشن 41 اور Rules of Islamabad Bar Council کی قواعد کے تحت دائر کی گئی ہے۔ اسبار کونسل کے ضابطے و قوانین یہ اختیار دیتی ہیں کہ اگر وکیل کی طرف سے سخت اخلاقی یا قانونی خلاف ورزیاں ثابت ہوں، تو ان کا لائسنس عارضی یا مستقل طور پر منسوخ کیا جائے۔
ایماندارانہ سماعت اور آئینی تقاضے
ایمان مزاری لائسنس منسوخی کا معاملہ صرف الزام نہیں بلکہ قانونی عمل، دفاع کا حق، شواہد کی جانچ، اور مؤثر سماعت کی ضرورت بھی ہے۔ آئینی حقوق کے مطابق، کسی بھی وکیل کو سزا دینے سے پہلے قانوناً اُنہیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دینا ضروری ہے۔
پیش رفت اور عدالت کی کارروائیاں
ریفرنس دائر ہونے کے بعد:
- اسلام آباد ہائی کورٹ کی سماعت ملتوی کی گئی کیونکہ ایمان مزاری پیش نہیں ہوئیں، اور ان کی جانب سے میڈیکل ایمرجنسی پیش کی گئی۔
- عدالت نے ریفرنس کی قانونی حیثیت پر تبادلہ خیال کیا، اور درخواست گزار سے جواب طلب کیا گیا۔
- متعلقہ بار کونسل کی ڈسپلنری کمیٹی کو کارروائی کی ہدایت کی جائے گی۔
عوامی اور قانونی برادری کی ردعمل
اس معاملے پر وکلا، بار کونسلز اور انسانی حقوق کے گروپوں نے مختلف ردعمل دیا ہے:
- کچھ لوگ ایمان مزاری لائسنس منسوخی کے اقدام کو آزادی اظہار کے خلاف مانتے ہیں۔
- دیگر کا نقطہ نظر ہے کہ قانون کے مطابق اگر الزامات ثابت ہوں تو کارروائی ناگزیر ہے۔
- میڈیا پر بحث مباحثہ جاری ہے کہ کس حد تک وکیل یا انسانی حقوق کارکن ریاستی حدود کے اندر رہ کر تنقید کر سکتا ہے۔
ممکنہ نتائج
اگر ایمان مزاری لائسنس منسوخی کا فیصلہ قانونی اور شفاف طریقے سے ہوتا ہے، تو یہ نیچے دیے گئے نتائج لا سکتا ہے:
- وکیل کا لائسنس مستقل منسوخ ہو سکتا ہے یا معطل کیا جا سکتا ہے
- دوسرے وکیل برادری میں پریشانیاں پیدا ہوں گی، خاص طور پر آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے معاملات میں
- یہ کیس آئندہ کیلئے ایک precedent (مثال) بنے گا کہ وکیلوں کی سرگرمیوں پر ریاست کس طرح نظر رکھتی ہے
تحفظات اور مباحثے
- کسی بھی وکیل کے خلاف کارروائی کرتے وقت شواہد کی شفافیت ضروری ہے
- آزادی اظہار کا حق آئین کی ضمانت ہے، اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا بیان بازی سچ مچ ریاست مخالف ہوتی ہے یا محض سیاسی اختلاف ہوتا ہے؟
- ایمان مزاری لائسنس منسوخی کے الزام پر مستقل منسوخی یا معطلی سے پہلے قانونی والدین اور بار کونسل قوانین کی پاسداری ضروری ہے
ایمان مزاری لائسنس منسوخی کا ریفرنس ایک سنگین معاملہ ہے جس میں قانون، آئین، اور انسانی حقوق کے اصول ٹکراؤ میں ہیں۔ اگر عدالتیں اور بار کونسل شفاف، منصفانہ اور وقت کی پابندی کے ساتھ کارروائی کریں تو نہ صرف ایمان مزاری بلکہ پورے عدالتی نظام کی شفافیت کو تقویت ملے گی۔ اس کیس کی سماعت اور نتیجہ آئندہ قانونی رویوں پر گہرا اثر ڈالے گا۔
ایمان مزاری شکایت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، انکوائری کمیٹی متحرک
