جسٹس محسن کیانی: پاکستانی اداروں کی ناکامی مایوس کن، کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا
اداروں کی ناکامی کا بحران
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سی ڈی اے سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران پاکستان کے اداروں کی ناکامی پر سخت ریمارکس دیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا کوئی ایک ادارہ بھی اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دینے کے قابل نہیں رہا، حتیٰ کہ عدالتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ان کے یہ ریمارکس پاکستان کے گورننس سسٹم، بلدیاتی انتخابات، اور اداروں کی ناکامی کے حوالے سے گہرے سوالات اٹھاتے ہیں۔
یہ مضمون جسٹس کیانی کے ریمارکس کا تفصیلی جائزہ لیتا ہے، جس میں وہ اداروں کی ناکامی، بلدیاتی انتخابات میں تاخیر، اور گورننس کے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ ہم اس بات کا بھی جائزہ لیں گے کہ یہ ریمارکس پاکستانی معاشرے اور نظام پر کیا اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی کے ریمارکس کی تفصیل
جسٹس محسن اختر کیانی نے سی ڈی اے سے متعلق کیس کے دوران اسلام آباد کے لوکل گورنمنٹ انتخابات نہ ہونے پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق تمام اختیارات سی ڈی اے سے میٹروپولیٹن کارپوریشن کو منتقل ہونا تھے، لیکن یہ عمل اب تک مکمل نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے بورڈ جو کچھ کر رہا ہے، وہ دراصل لوکل گورنمنٹ کا کام ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے مطابق عوام کے منتخب نمائندوں کو اپنا اختیار استعمال کرنا چاہیے، لیکن اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمل ممکن نہیں ہو سکا۔ ہائی کورٹ نے چار اور سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا، لیکن اس کے باوجود حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے میں ناکامی دکھائی۔
جسٹس کیانی نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان میں کوئی ایک ادارہ بھی اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہے؟ انہوں نے عدالتیں سمیت تمام اداروں کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ماتحت عدالتوں کی حالت بھی قابل رحم ہے۔
اداروں کی ناکامی: ایک گہرا بحران
جسٹس کیانی کے ریمارکس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں اداروں کی ناکامی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورننس کے سنجیدہ مسائل ہیں، اور جو کام عوامی نمائندوں کو کرنا چاہیے تھا، وہ عدالتیں کر رہی ہیں۔ اس صورتحال نے نہ صرف اداروں کی کارکردگی کو متاثر کیا بلکہ عوام کا اعتماد بھی کم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر قانون کسی کو "سوٹ” نہیں کرتا تو اسے ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ پانچ سال سے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اداروں کی ناکامی نے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کی تاخیر
اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کی تاخیر ایک اہم مسئلہ ہے۔ جسٹس کیانی نے کہا کہ اسلام آباد کے شہریوں کا حق ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ان کے فیصلے کریں۔ لیکن اس حق سے انہیں محروم رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا جائز ہے؟
بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا نہ صرف آئینی تقاضوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے شہریوں کی نمائندگی کا حق بھی سلب ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال اداروں کی ناکامی کا ایک واضح ثبوت ہے۔
عدالتیں اور ان کا کردار
جسٹس کیانی نے عدالتی نظام کی خرابیوں کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ماتحت عدالتوں کی حالت دیکھیں، جہاں عام آدمی کی طرح ججز کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔ عدالتیں وہ کام کر رہی ہیں جو عوامی نمائندوں کا کام ہے، جو کہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتیں اپنی حدود سے باہر جا کر گورننس کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جو کہ ان کا بنیادی کام نہیں ہے۔ یہ صورتحال اداروں کی ناکامی کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔
گورننس کے مسائل اور عوام
جسٹس کیانی نے کہا کہ 25 کروڑ عوام کس طرح زندگی گزار رہے ہیں، اس کا کسی کو احساس نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا "اسپرٹ” ختم ہو چکا ہے، اور کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ ریمارکس پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی مایوسی اور بداعتمادی کی عکاسی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے، وہ بدقسمتی کی بات ہے۔ اداروں کی ناکامی نے نہ صرف نظام کو متاثر کیا بلکہ عوام کے بنیادی حقوق بھی سلب کر لیے ہیں۔
اداروں کی ناکامی کے اثرات
اداروں کی ناکامی کے اثرات معاشرے کے ہر طبقے پر پڑ رہے ہیں۔ جب ادارے اپنا کام نہیں کرتے تو عوام کا نظام پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے معاشرتی اور معاشی مسائل جنم لیتے ہیں، جو کہ ملک کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہیں۔
جسٹس کیانی کے ریمارکس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اداروں کی ناکامی نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جہاں ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ رہا ہے۔ اس سے نظام کی شفافیت اور کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔
کیا کوئی حل ممکن ہے؟
جسٹس کیانی نے کہا کہ ہر کسی کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، لیکن بدنیتی نہیں ہونی چاہیے۔ اداروں کی ناکامی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
بلدیاتی انتخابات کا انعقاد
بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اداروں کی ناکامی کو کم کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ جب عوام کے منتخب نمائندوں کو فیصلہ سازی کا اختیار ملے گا تو گورننس کے مسائل میں بہتری آ سکتی ہے۔
عدالتی اصلاحات
عدالتی نظام میں اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔ ماتحت عدالتوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے وسائل اور تربیت کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، عدالتوں کو صرف اپنے دائرہ کار میں کام کرنا چاہیے تاکہ گورننس کے مسائل کا بوجھ ان پر نہ پڑے۔
اداروں کی خود مختاری
اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ جب ادارے آزادانہ طور پر کام کریں گے تو ان کی کارکردگی بہتر ہو گی۔ اس کے لیے سیاسی مداخلت کو ختم کرنا ہو گا۔
نتیجہ
جسٹس محسن اختر کیانی کے ریمارکس پاکستان کے اداروں کی ناکامی کی ایک واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے عدالتیں، بلدیاتی ادارے، اور دیگر سرکاری اداروں کی ناکامی پر کھل کر بات کی۔ یہ ریمارکس نہ صرف گورننس کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
پاکستان کے عوام کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مضبوط اداروں کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد، عدالتی اصلاحات، اور اداروں کی خود مختاری اس بحران سے نکلنے کے لیے اہم اقدامات ہو سکتے ہیں۔ آخر میں، جسٹس کیانی کا یہ جملہ کہ "ہر کسی کو اپنا کام کرنا چاہیے” اس بحران کا حل تلاش کرنے کی طرف ایک اہم اشارہ ہے۔
ایمان مزاری شکایت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، انکوائری کمیٹی متحرک
