اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے ایک اہم مقدمے میں وکیل اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ایمان مزاری ایڈووکیٹ اور ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ ایڈووکیٹ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ یہ مقدمہ ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف متنازع ٹوئٹ کے حوالے سے درج کیا گیا تھا۔ اس پیش رفت نے قانونی اور عوامی حلقوں میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
مقدمے کا پس منظر
ایمان مزاری ایڈووکیٹ، جو معروف سیاستدان شیریں مزاری کی صاحبزادی ہیں، انسانی حقوق کے موضوع پر اپنی کھری رائے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ بھی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ ان دونوں کے خلاف ایک متنازع ٹوئٹ کیس اسلام آباد میں زیرِ سماعت تھا، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف نازیبا اور اشتعال انگیز بیانات دیے۔
عدالت کی کارروائی
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے اس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کو بارہا طلبی کے نوٹس جاری کیے تھے، مگر دونوں کی جانب سے عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت نے سخت کارروائی کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
عدالت کا حکم
عدالت نے حکم دیا کہ دونوں ملزمان کو گرفتار کرکے 24 ستمبر کو عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔ اس سے قبل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے وکلاء نے وارنٹ منسوخی کی درخواست دائر کی تھی، لیکن عدالت نے فی الفور اس استدعا کو مسترد کر دیا۔
وارنٹ منسوخی کی درخواست کیوں مسترد ہوئی؟
قانونی ماہرین کے مطابق عدالت نے وارنٹ منسوخی کی درخواست اس لیے مسترد کی کیونکہ ملزمان نے بار بار کے نوٹس کے باوجود عدالت میں حاضری نہیں دی۔ جج نے ریمارکس دیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور عدالت کی ہدایات کو سنجیدگی سے لینا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔
ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی اہمیت
ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد ضمانت پر فوری طور پر رہا نہیں کیا جا سکتا۔ اس نوعیت کے وارنٹ اس وقت جاری کیے جاتے ہیں جب عدالت یہ محسوس کرے کہ ملزم عدالتی کارروائی میں شامل ہونے سے گریز کر رہا ہے یا جان بوجھ کر سماعت میں تاخیر کر رہا ہے۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایمان مزاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونا نہ صرف ان کے لیے ایک بڑا قانونی چیلنج ہے بلکہ اس سے پاکستان کے قانونی اور سیاسی منظرنامے پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ کچھ ماہرین کے مطابق، عدالت نے ایک مضبوط پیغام دیا ہے کہ عدالتی عمل میں رکاوٹ ڈالنے والے افراد کو کسی بھی صورت رعایت نہیں دی جائے گی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
ایمان مزاری چونکہ انسانی حقوق کے معاملات میں سرگرم رہتی ہیں، اس لیے ان کے خلاف جاری ہونے والے وارنٹ گرفتاری پر مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کچھ تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات آزادی اظہار پر قدغن کے مترادف ہیں، جبکہ دوسری جانب کچھ حلقے اسے قانون کی بالادستی کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
عوامی اور سیاسی ردعمل
سوشل میڈیا پر اس کیس پر شدید بحث جاری ہے۔ ایک طبقہ ایمان مزاری کی حمایت کر رہا ہے اور اسے سیاسی انتقام قرار دے رہا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ عوامی سطح پر یہ معاملہ قانون اور سیاست کے درمیان کشمکش کی ایک مثال بن گیا ہے۔
آئندہ کا لائحہ عمل
کیس کی آئندہ سماعت 24 ستمبر کو ہوگی۔ اگر ایمان مزاری اور ان کے شوہر کو اس تاریخ سے پہلے گرفتار کر لیا جاتا ہے تو انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا، جہاں عدالت ان کے خلاف فردِ جرم عائد کرنے یا دیگر قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرے گی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کا ایمان مزاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا فیصلہ پاکستان کے عدالتی نظام میں قانون کی عملداری کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص عدالت کی ہدایات کو نظر انداز نہیں کر سکتا، چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو۔
عدالت نے پیکا ایکٹ کے تحت ایمان مزاری اور ان کے شوہر کو طلب کرلیا