پاکستانی سیاست میں جعلی ڈگری کے اسکینڈلز نئے نہیں ہیں۔ متعدد سیاستدان اس طرح کے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں ملتان سیشن کورٹ نے سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کے خلاف تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے انہیں جمشید دستی جعلی ڈگری کیس میں مجموعی طور پر 17 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ یہ فیصلہ سیاسی اور قانونی حلقوں میں گہری بحث کا باعث بن رہا ہے۔
مقدمے کا پس منظر
جمشید دستی، جو مظفرگڑھ کے حلقہ این اے 178 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، پر الزام تھا کہ انہوں نے 2008ء کے عام انتخابات میں ایک جعلی بی اے ڈگری جمع کرائی۔ یہ ڈگری ایک مدرسے سے جاری کی گئی بتائی گئی تھی، لیکن بعد ازاں سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے عدالت میں بیان دیا کہ ان کے ریکارڈ میں ایسی کوئی ڈگری موجود نہیں۔

الیکشن کمیشن نے اس بنیاد پر ان کے خلاف استغاثہ دائر کیا، جسے بعد ازاں عدالت نے باقاعدہ ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہونے پر سزا دی۔
عدالت کا فیصلہ
ملتان سیشن کورٹ نے طویل سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزم نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ اس نے عوام اور الیکشن کمیشن کے سامنے حقائق چھپائے۔ عدالت نے جمشید دستی کو مجموعی طور پر 17 سال قید کی سزا سنائی۔
یہ فیصلہ نہ صرف ان کی سیاسی زندگی پر اثر انداز ہوگا بلکہ دیگر سیاستدانوں کے لیے بھی ایک کڑا پیغام ہے کہ عوامی نمائندوں کو دیانت داری کے اعلیٰ معیار پر پرکھا جائے گا۔
آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی اہمیت
پاکستانی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 عوامی نمائندوں کی اہلیت اور نااہلی کے اصول متعین کرتے ہیں۔
- آرٹیکل 62 یہ کہتا ہے کہ عوامی نمائندہ صادق اور امین ہونا چاہیے۔
- آرٹیکل 63 نااہلی کی وجوہات بیان کرتا ہے جن میں جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا اور غلط بیانی شامل ہیں۔
جمشید دستی پر یہ الزام ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنی اہلیت کے بارے میں جھوٹ بولا اور جعلی کاغذات جمع کرائے۔
سیاسی سفر اور تنازعات
جمشید دستی کا سیاسی سفر ہمیشہ تنازعات میں گھرا رہا۔ وہ عوامی سیاست کے نعرے کے ساتھ سامنے آئے اور اپنی سادگی و عوامی طرزِ عمل کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ تاہم، ان پر جعلی ڈگری کے الزامات بار بار لگتے رہے۔
یہ سزا ان کے سیاسی کیریئر کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ نااہلی کے بعد ان کے مستقبل میں الیکشن لڑنے کے امکانات نہایت کم ہو گئے ہیں۔
عوامی ردعمل
اس فیصلے پر عوامی ردعمل دو حصوں میں تقسیم نظر آیا۔ کچھ لوگوں نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام سیاست میں جھوٹ اور دھوکے کو ختم کرنے کے لیے ضروری تھا۔ جبکہ جمشید دستی کے حمایتیوں نے اسے سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوامی رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جمشید دستی جعلی ڈگری کیس میں سنایا گیا فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہم مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق کسی کو رعایت نہیں دیتیں، چاہے وہ عوامی نمائندہ ہی کیوں نہ ہو۔
پاکستان میں جعلی ڈگری کے کیسز
پاکستان میں جعلی ڈگری اسکینڈل ماضی میں بھی کئی سیاستدانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ 2010ء میں بھی الیکشن کمیشن اور عدالتوں نے درجنوں اراکین اسمبلی کو جعلی ڈگری رکھنے پر نااہل قرار دیا تھا۔ یہ معاملہ اس وقت اور زیادہ سنجیدہ ہوا جب اعلیٰ عدلیہ نے ان کیسز پر سخت کارروائی کا حکم دیا۔
مستقبل کے اثرات
اس فیصلے کے بعد نہ صرف جمشید دستی کی سیاست ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے بلکہ یہ فیصلہ دیگر عوامی نمائندوں کے لیے بھی ایک وارننگ ہے۔ اگر کوئی امیدوار جھوٹ یا دھوکہ دہی کے ذریعے الیکشن لڑنے کی کوشش کرے گا تو اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ملتان سیشن کورٹ کا یہ فیصلہ پاکستانی سیاست میں شفافیت اور دیانت داری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جمشید دستی جعلی ڈگری کیس میں 17 سال قید کی سزا اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔ یہ فیصلہ مستقبل کی سیاست میں ایک مثال قائم کرے گا اور عوام کو بھی زیادہ باشعور بنائے گا
جمشید دستی نااہل قرار، الیکشن کمیشن نے جعلی ڈگری کیس میں فیصلہ سنا دیا