پاکستان میں پولیو کا خاتمہ ایک دہائیوں پر محیط جدوجہد ہے، تاہم حیدر آباد پولیو کیس کی حالیہ تصدیق نے ایک بار پھر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) کے مطابق رواں سال پولیو کیسز کی تعداد بڑھ کر 27 ہو گئی ہے جن میں سے 7 کیسز کا تعلق سندھ سے ہے۔
حیدر آباد پولیو کیس کی تفصیلات
ضلع حیدر آباد سے سامنے آنے والا نیا کیس پاکستان میں پولیو کے مستقل خطرے کو اجاگر کرتا ہے۔ ای او سی کے مطابق متاثرہ بچہ ویکسینیشن سے محروم تھا۔ اس کیس کی تصدیق کے بعد پولیو ورکرز اور محکمہ صحت کی سرگرمیوں میں مزید تیزی لائی گئی ہے۔
سندھ میں پولیو کی صورتحال
سندھ پولیو کے زیادہ متاثرہ صوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ رواں سال سندھ میں پولیو کے 7 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں کراچی، لاڑکانہ اور اب حیدر آباد پولیو کیس شامل ہے۔ صحت کے ماہرین کے مطابق شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں ویکسینیشن کے خلاف مزاحمت اور لاعلمی مسائل کی بنیادی وجہ ہیں۔
پاکستان میں مجموعی اعداد و شمار
پاکستان بھر میں 2025 کے دوران اب تک 27 کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر کیس کے ساتھ پولیو کے مکمل خاتمے کی منزل مزید دور ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت اور عالمی ادارے مشترکہ کوششوں کے باوجود اب تک اس بیماری کو ختم نہیں کر پائے۔
پولیو کیوں خطرناک ہے؟
پولیوایک لاعلاج اور موذی مرض ہے جو زندگی بھر کے لیے معذوری کا باعث بنتا ہے۔ اس کا وائرس اعصابی نظام پر حملہ کرتا ہے اور متاثرہ افراد کو چلنے پھرنے سے محروم کر سکتا ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ حیدر آباد پولیو کیس جیسے واقعات والدین کو یہ سوچنے پر مجبور کرنے چاہییں کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانا کتنا ضروری ہے۔
والدین کے لیے اہم پیغام
نیشنل ای او سی اور وزارت صحت نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ انسداد پولیو مہمات کے دوران لازمی طور پر اپنے بچوں کو قطرے پلائیں۔ والدین کی غفلت اور جھوٹی افواہیں ہی اس بیماری کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
آئندہ پولیو مہم
پاکستان بھر میں آئندہ انسداد پولیو مہم 13 اکتوبر سے 19 اکتوبر تک جاری رہے گی۔ اس دوران ملک بھر میں پانچ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو ویکسین پلائی جائے گی۔ متعلقہ اداروں نے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں تاکہ دور دراز دیہات اور شہری علاقوں تک ہر بچہ پولیو ویکسین حاصل کر سکے۔
عالمی اداروں کی تشویش
عالمی ادارہ صحت (WHO) اور یونیسف نے پاکستان میں بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حیدر آباد پولیو کیس کی طرح کے نئے واقعات پاکستان کو دنیا کے ان چند ممالک میں شامل رکھتے ہیں جہاں پولیو آج بھی موجود ہے۔
پولیو کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات
پاکستانی حکومت نے انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے ہیں۔ حفاظتی تدابیر، آگاہی مہمات اور ہر گھر تک ٹیموں کی رسائی ان کوششوں کا حصہ ہیں۔ تاہم عوامی تعاون کے بغیر ان کوششوں کی کامیابی ممکن نہیں۔
حیدر آباد پولیو کیس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے پاکستان کو مزید سنجیدہ اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے بچوں کو ویکسین ضرور پلائیں، کیونکہ یہ نہ صرف ان کے اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔