آزاد کشمیر احتجاج: وفاقی وزرا مظفرآباد روانہ، مذاکراتی عمل شروع
آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے 29 ستمبر کو متوقع احتجاجی مظاہرے کے پیش نظر حکومتِ پاکستان نے اہم اور فوری اقدام اٹھاتے ہوئے دو وفاقی وزرا کو مظفرآباد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق، حکومت نے احتجاجی معاملات میں کردار ادا کرنے اور ممکنہ تصادم کی صورتحال سے بچنے کے لیے مذاکراتی عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان، امیر مقام اور وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور، طارق فضل چوہدری کو فوری طور پر مظفرآباد روانہ کیا جا رہا ہے، جہاں وہ آج ہی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت اور مذاکراتی ٹیموں سے ملاقات کریں گے۔
نوٹیفکیشن کی تفصیلات اور حکومتی پالیسی میں تبدیلی
وزیراعظم آفس سے جاری نوٹیفکیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حکومت اس احتجاجی تحریک کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اسے پرامن طور پر حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس اقدام کو ایک اہم پالیسی تبدیلی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ماضی میں وفاقی حکومت ایسے معاملات میں براہ راست مداخلت سے گریز کرتی رہی ہے۔
نوٹیفکیشن میں آزاد کشمیر حکومت کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ وفاقی وزرا کی موجودگی اور مذاکراتی عمل میں مکمل تعاون کرے تاکہ ایک تعمیری حل تک پہنچا جا سکے۔ اس پیش رفت کو خطے میں سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے ایک مثبت قدم سمجھا جا رہا ہے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج: پس منظر اور مطالبات
یاد رہے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 29 ستمبر کو ایک بڑے عوامی احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے، جس میں ہزاروں شہریوں کے مظفرآباد سمیت مختلف اضلاع میں سڑکوں پر نکلنے کی توقع ہے۔ کمیٹی کے مطابق ان کا احتجاج مکمل طور پر پرامن ہوگا، تاہم اگر ان کے مطالبات نہ سنے گئے تو وہ اپنے احتجاج کو وسعت دے سکتے ہیں۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات میں مہنگائی، بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ، بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، اور آزاد کشمیر کے ترقیاتی فنڈز میں مبینہ کٹوتیوں جیسے امور شامل ہیں۔ کمیٹی کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت کی عدم توجہی اور مقامی حکومت کی ناکامی کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
حکومت کا مذاکراتی راستہ: مفاہمت یا دباؤ؟
حکومت کی جانب سے وفاقی وزرا کو مظفرآباد بھیجنے کا فیصلہ درحقیقت ایک اہم حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے۔ ایک طرف حکومت احتجاج کو پرامن رکھنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ کسی قسم کی سیاسی یا انتظامی بدامنی سے بچا جا سکے، تو دوسری طرف وہ عوامی جذبات کو سن کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف وقتی حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ہے بلکہ وفاقی حکومت آئندہ انتخابات کے تناظر میں آزاد کشمیر کے عوام کو یہ پیغام بھی دینا چاہتی ہے کہ ان کے مسائل وفاق کے ایجنڈے پر موجود ہیں۔
آزاد کشمیر حکومت کی پوزیشن
آزاد کشمیر حکومت کو اس تمام تر صورتحال میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگرچہ آزاد کشمیر ایک خودمختار نظام کے تحت کام کرتا ہے، تاہم اس طرح کے بڑے احتجاجات میں وفاقی مداخلت کو اکثر متنازعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے آزاد کشمیر حکومت کو نہ صرف وفاقی وزرا کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہوگا بلکہ عوام کو یہ یقین بھی دلانا ہوگا کہ ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، آزاد کشمیر کے کچھ حلقے وفاقی وزرا کی آمد کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں، جبکہ کچھ سیاسی قوتیں اسے مرکز کی غیر ضروری مداخلت تصور کر رہی ہیں۔
احتجاج کے امکانات اور سیکیورٹی صورتحال
29 ستمبر کے احتجاج سے قبل مظفرآباد اور دیگر بڑے شہروں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ پولیس اور رینجرز کو ہدایت دی گئی ہے کہ کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں، تاہم عوام کو مشتعل نہ کیا جائے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کا احتجاج پُرامن ہوگا، اور اگر حکومت سنجیدگی سے مذاکرات کرے تو وہ احتجاجی پروگرام میں لچک پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سیاسی تجزیہ: ایک نئے بیانیے کی تشکیل؟
ماہرین سیاسیات کا ماننا ہے کہ یہ احتجاج صرف مہنگائی یا بلدیاتی امور تک محدود نہیں، بلکہ عوام میں پائے جانے والے ایک مجموعی احساسِ محرومی کا اظہار ہے۔ اگر حکومت اس موقع کو سنجیدگی سے لے اور ایک فعال مذاکراتی عمل شروع کرے، تو نہ صرف اس احتجاج کو روکا جا سکتا ہے بلکہ ایک نیا سیاسی بیانیہ بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے جس میں عوام کی آواز کو ترجیح دی جائے۔
مذاکرات یا محاذ آرائی؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی وزرا کی موجودگی کس حد تک مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اگر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ کامیاب مذاکرات ہو جاتے ہیں تو 29 ستمبر کا احتجاج مؤخر یا محدود ہو سکتا ہے، لیکن اگر بات چیت ناکام رہتی ہے تو آزاد کشمیر میں ایک بڑی سیاسی کشیدگی جنم لے سکتی ہے۔
حکومت کے اس اقدام نے ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ عوامی مسائل کو براہ راست سننے اور حل کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ اب یہ موقع کس حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، اس کا انحصار آنے والے دنوں میں ہونے والے مذاکرات پر ہے۔