آٹے اور روٹی کی قیمت مقرر – حکومت پنجاب کا بڑا فیصلہ
پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام شہری کی زندگی کو بے حد مشکل بنا دیا ہے۔ روزمرہ ضروریات کی چیزیں خصوصاً گندم، آٹا اور روٹی ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہیں، مگر گزشتہ کچھ عرصے سے ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے ایک بڑا فیصلہ کیا ہے اور باضابطہ طور پر آٹے اور روٹی کی قیمت مقرر کر دی ہے۔ اس فیصلے کو جہاں عوامی سطح پر خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے، وہیں ماہرین معیشت نے اس کے اثرات پر گہری نظر رکھنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
حکومت پنجاب کا نوٹیفکیشن
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ حکومت نے آٹے اور روٹی کی قیمت پر قابو پانے کے لیے ایک جامع پالیسی اختیار کی ہے۔ ان کے مطابق:
10 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 905 روپے مقرر کر دی گئی ہے۔
20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1810 روپے مقرر کی گئی ہے۔
ایک روٹی کی قیمت 14 روپے مقرر کی گئی ہے۔
یہ فیصلہ عوامی دباؤ اور بڑھتی مہنگائی کے پیشِ نظر کیا گیا تاکہ لوگ کم از کم بنیادی کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کے قابل رہیں۔
آٹے اور روٹی کی قیمت کیوں بڑھتی رہی؟
گزشتہ کئی ماہ سے ملک بھر میں آٹے اور روٹی کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ اس کے پیچھے متعدد وجوہات کارفرما ہیں، جیسے کہ:
بارشوں اور سیلاب کے باعث فصلوں کو نقصان۔
ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری۔
ٹرانسپورٹ اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات۔
حکومت کی جانب سے بروقت گندم درآمد نہ کرنا۔
ان عوامل نے مل کر مارکیٹ میں رسد اور طلب کا توازن بگاڑ دیا، جس کا براہِ راست اثر آٹے اور پھر روٹی کی قیمت پر پڑا۔
فلور ملز ایسوسی ایشن کا خدشہ
فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین جنید عزیز نے کہا ہے کہ موجودہ حالات کے باوجود مستقبل میں آٹے اور روٹی کی قیمت میں مزید اضافے کا خدشہ موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
عالمی مارکیٹ میں گندم سستی ہے لیکن پاکستان میں مہنگی مل رہی ہے۔
اگر بروقت گندم درآمد نہ کی گئی تو بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
یہ صورتحال عوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ حکومت طویل مدتی حکمتِ عملی اپنائے۔
عوامی ردعمل
پنجاب حکومت کی جانب سے آٹے اور روٹی کی قیمت مقرر کرنے کے فیصلے پر عوام نے مختلف آراء کا اظہار کیا۔
کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ اقدام عوام کو ریلیف فراہم کرے گا۔
جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ 14 روپے میں روٹی پھر بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے کیونکہ مہنگائی کے دوسرے شعبے بھی بے قابو ہیں۔
ایک شہری نے کہا:
"مہنگائی نے پہلے ہی جینا مشکل کر دیا ہے، اگر حکومت واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو آٹے اور روٹی کی قیمت مزید کم کرے۔”
معیشت پر اثرات
ماہرین معاشیات کے مطابق اگر حکومت سختی سے اس نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کراتی ہے تو قلیل مدتی طور پر عوام کو ریلیف ضرور ملے گا۔ تاہم، طویل مدت میں یہ پالیسی تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب:
گندم کی مقامی پیداوار کو بہتر بنایا جائے۔
جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔
ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
عالمی مارکیٹ سے بروقت سستی گندم درآمد کی جائے۔
اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے وقت میں دوبارہ آٹے اور روٹی کی قیمت بڑھنے کا خدشہ برقرار رہے گا۔
سیلاب اور فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ
سیلاب کے باعث فصلوں کو شدید نقصان پہنچا جس کی وجہ سے گندم کی پیداوار متاثر ہوئی۔ اس کا براہِ راست اثر آٹے اور روٹی کی قیمت پر پڑا۔ مزید یہ کہ ملک میں فوڈ سیکیورٹی ایک سنجیدہ مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ جب تک حکومت اور متعلقہ ادارے اس طرف توجہ نہیں دیتے، عوام کو سستی روٹی مہیا کرنا ایک مشکل چیلنج رہے گا۔
انتظامیہ کا کردار
وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ انتظامیہ کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ مارکیٹ میں آٹے اور روٹی کی قیمت پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ اگر کوئی دکاندار یا نان بائی مقررہ قیمت سے زیادہ وصول کرتا پایا گیا تو اس کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔
سیلاب اور بارشوں سے غذائی بحران: گندم اور آٹے کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ
حکومت پنجاب کا یہ فیصلہ عوام کے لیے وقتی ریلیف ضرور ہے، مگر حقیقی معنوں میں استحکام اسی وقت آئے گا جب حکومت طویل المدتی اقدامات کرے۔ گندم کی پیداوار میں اضافہ، ذخیرہ اندوزی کے خاتمے اور عالمی مارکیٹ سے بروقت گندم کی خریداری جیسے اقدامات کیے گئے تو ملک میں آٹے اور روٹی کی قیمت مستقل طور پر کنٹرول میں لائی جا سکتی ہے۔
