آٹے اور میدے کی قیمتوں میں اضافہ، راولپنڈی میں نان بائیوں کی ہڑتال سے عوام پریشان
راولپنڈی میں روزمرہ کی زندگی ایک نئی آزمائش سے دوچار ہو گئی ہے۔
شہر بھر میں نان بائیوں نے آٹے اور میدے کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف ہڑتال کر دی،
جس کے باعث شہریوں کو روٹی اور نان جیسی بنیادی ضرورت کے لیے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
پس منظر — آٹے اور میدے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
گزشتہ چند ماہ میں ملک بھر میں آٹے اور میدے کی قیمتوں میں اضافہ مسلسل دیکھا جا رہا ہے۔
راولپنڈی کے نان بائیوں کا کہنا ہے کہ ایک ڈیڑھ سال قبل
آٹے کی سرخ بوری 5500 روپے میں دستیاب تھی،
جو اب بڑھ کر 10,500 روپے تک جا پہنچی ہے۔
اسی طرح سفید آٹا یعنی میدہ، جو پہلے 6200 روپے فی بوری تھا،
اب 12,000 روپے میں مل رہا ہے۔
یہ مہنگائی نان بائیوں کے لیے کاروبار جاری رکھنا ناممکن بنا رہی ہے۔
نان بائیوں کی ہڑتال – شہر میں تنور بند، عوام پریشان
آٹے اور میدے کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے
نان بائی ایسوسی ایشن نے مکمل ہڑتال کا اعلان کیا۔
نتیجتاً راولپنڈی کے تمام چھوٹے بڑے تندور بند ہو گئے۔
شہر کے گلی محلوں میں نان، روٹی اور کلچے نایاب ہو چکے ہیں۔
چائے اور کھانے کے ہوٹل کھلے تو ہیں مگر
نان کے بغیر ناشتے اور کھانے کا لطف ادھورا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ
“ہمارے لیے ناشتہ کرنا یا دوپہر کا کھانا کھانا ایک مسئلہ بن گیا ہے۔
روٹی تو بنیادی ضرورت ہے، مگر اب لگتا ہے یہ بھی مہنگائی کی زد میں آ گئی ہے۔”
نان بائی ایسوسی ایشن کا مؤقف
صدر نان بائی ایسوسی ایشن، شفیق قریشی کے مطابق:
“ہم 14 روپے میں روٹی فروخت نہیں کر سکتے،
جبکہ آٹا اور میدہ دونوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
گیس، بجلی، تنور کا کرایہ اور مزدوری سب کچھ بڑھ گیا ہے۔”
ان کے مطابق، اگر حکومت نے آٹے اور میدے کی قیمتوں میں اضافہ پر قابو نہ پایا،
تو تندور بند رہیں گے اور لوگ سستی روٹی کو ترس جائیں گے۔
گیس کی بندش اور بڑھتے بل – دوہری مار
راولپنڈی کے نان بائیوں نے بتایا کہ گیس کی فراہمی میں تعطل
ان کے مسائل کو مزید بڑھا رہا ہے۔
نان بائی 15 ہزار روپے میں گیس سلنڈر خریدنے پر مجبور ہیں،
جبکہ سرکاری بل لاکھوں روپے میں موصول ہو رہے ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف چھوٹے کاروباروں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ
شہر کے کھوکھے، ہوٹلز اور ریستوران بھی شدید بحران کا شکار ہیں۔
ان کے بقول:
“گیس نہیں، آٹا مہنگا، میدہ دگنا ریٹ — اب روٹی کیسے پکے؟”
پنجاب ریگولیٹری اتھارٹی پر تنقید
نان بائی ایسوسی ایشن نے
پنجاب انفورسمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پیرا کی جانب سے
50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کے بھاری جرمانے لگائے جاتے ہیں۔
یہ جرمانے نان بائیوں کے لیے “آخری دھچکا” ثابت ہو رہے ہیں۔
نان بائیوں کے مطابق،
“حکومت کو چاہیے کہ وہ پیرا کے بجائے
مہنگائی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے،
تاکہ ہم عام عوام کو سستی روٹی دے سکیں۔”
عوام کی مشکلات – نان کے بغیر ناشتے ادھورے
ہڑتال کے باعث راولپنڈی میں ناشتہ اور دوپہر کے کھانے کے دوران
ہزاروں شہری متاثر ہو رہے ہیں۔
نان اور روٹی کی عدم دستیابی نے
عام لوگوں، خاص طور پر مزدور طبقے، کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
بہت سے ہوٹل مالکان نے بتایا کہ
“چائے اور سالن تو تیار ہیں مگر نان نہیں۔
لوگ آتے ہیں، پوچھتے ہیں، اور واپس چلے جاتے ہیں۔”
یہی وجہ ہے کہ چھوٹے کھانے پینے کے کاروبار
آٹے اور میدے کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث
عملاً بندش کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
حکومت کی خاموشی – سوالیہ نشان
اب تک ضلعی انتظامیہ یا صوبائی حکومت کی جانب سے
کوئی واضح اقدام سامنے نہیں آیا۔
نان بائی ایسوسی ایشن نے حکومت کو خبردار کیا ہے
کہ اگر آٹے اور میدے کی قیمتیں کم نہ کی گئیں
تو ہڑتال کا دائرہ پنجاب بھر میں پھیل جائے گا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ
آٹے اور میدے کی قیمتوں میں اضافہ
صرف نان بائیوں نہیں بلکہ عام شہریوں کے لیے
بنیادی اشیائے خور و نوش کی فراہمی کو مشکل بنا دے گا۔
تجزیہ – مہنگائی کی زنجیر میں بندھا عوامی پیٹ
پاکستان میں روٹی ہمیشہ سے عام آدمی کی بنیادی ضرورت رہی ہے۔
لیکن اب آٹے اور میدے کی قیمتوں میں اضافہ نے
عام شہری کے لیے روٹی کا حصول بھی ایک جدوجہد بنا دیا ہے۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ
جب تک حکومت آٹے کی سپلائی چین کو مستحکم نہیں کرتی،
یہ بحران ختم نہیں ہوگا۔
راولپنڈی میں نان بائیوں کی ہڑتال نے واضح کر دیا
کہ اب مہنگائی کا بوجھ صرف صارفین نہیں بلکہ
خود کاروباری طبقہ بھی برداشت نہیں کر پا رہا۔
آٹے اور میدے کی قیمتوں میں اضافہ
صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں بلکہ
یہ عوام کے روزمرہ کے جینے مرنے کا سوال بن چکا ہے۔









