پشاور میں آٹا مہنگا 2025 — 20 کلو آٹے کا تھیلا ایک دن میں 200 روپے بڑھ گیا، بحران مزید شدت اختیار کر گیا
خیبرپختونخوا کا دارالحکومت پشاور ایک بار پھر آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی زد میں آ گیا ہے، جس سے عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ آٹا، جو کہ روزمرہ زندگی کا ایک بنیادی جزو ہے، اب متوسط اور نچلے طبقے کے لیے ایک قیمتی شے بنتا جا رہا ہے۔ آٹا ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق، صرف ایک دن میں 20 کلوگرام کے تھیلے کی قیمت میں 200 روپے کا ہوشربا اضافہ ہوا ہے، جس نے صارفین کو حیرت اور مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔
قیمتوں میں حالیہ اضافہ
آٹا ڈیلرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں 20 کلوگرام فائن آٹے کے تھیلے کی قیمت 2600 روپے سے بڑھ کر 2800 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 20 کلوگرام مکس آٹے کا تھیلا بھی 200 روپے مہنگا ہو کر 2700 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس اچانک اور مسلسل اضافے نے نہ صرف شہریوں کو مالی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ نانبائیوں اور دیگر متعلقہ کاروباری افراد کے لیے بھی مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔
قیمتوں میں غیر یقینی صورتحال
آٹا ڈیلرز ایسوسی ایشن کے نمائندگان نے اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب سے آنے والی گندم کی سپلائی میں رکاوٹوں کے باعث قیمتوں میں استحکام ممکن نہیں رہا۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا زرعی صوبہ ہے، جہاں سے خیبرپختونخوا سمیت ملک کے دیگر حصوں کو گندم فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں اس سپلائی چین میں تعطل اور غیر یقینی صورتحال نے مارکیٹ پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔
ماضی قریب میں بھی اضافہ
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پشاور میں آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوا ہو۔ صرف چند روز قبل ہی 20 کلو کے تھیلے کی قیمت میں 100 سے 150 روپے تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا، جس کے بعد 20 کلو مکس آٹے کی قیمت 2000 روپے سے بڑھ کر 2150 روپے تک پہنچ گئی تھی۔ یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں استحکام کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
بلوچستان میں بھی صورتحال تشویشناک
آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ صرف پشاور یا خیبرپختونخوا تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان میں بھی صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 20 کلوگرام آٹے کا تھیلا 2300 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ صوبائی سطح پر گندم کی قلت، نقل و حمل کے مسائل، اور حکومتی عدم توجہی نے اس بحران کو سنگین تر بنا دیا ہے۔
عوامی ردعمل
عوام کی جانب سے اس صورتحال پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک مقامی رہائشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"مہنگائی نے پہلے ہی جینا مشکل کر رکھا ہے، اب آٹے جیسے بنیادی جزو کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ حکومت صرف بیانات دیتی ہے، عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔”
نانبائی حضرات بھی اس اضافے سے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ آٹے کی قیمت بڑھنے سے روٹی کی قیمت میں بھی اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے، جس پر صارفین شدید احتجاج کرتے ہیں۔ نتیجتاً کاروبار متاثر ہوتا ہے اور عوامی بے چینی مزید بڑھ جاتی ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے
معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافہ بنیادی طور پر حکومتی پالیسیوں میں عدم توازن، سپلائی چین کی غیر فعالیت، اور ذخیرہ اندوزوں کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سنجیدگی سے گندم کی فراہمی اور قیمتوں کے کنٹرول کے لیے اقدامات نہ کرے، تو مستقبل میں یہ بحران غذائی سلامتی کے سنگین مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی اور انتظامی ناکامی
ذرائع کے مطابق، بعض آٹا ملز اور ڈیلرز ذخیرہ اندوزی میں بھی ملوث ہیں، جو قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کر کے منافع خوری کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہ ہونے کے باعث یہ لوگ بے خوف ہو کر صارفین کو لوٹ رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کی سطح پر اقدامات یا تو برائے نام ہیں یا پھر مکمل طور پر غیر موثر ثابت ہو رہے ہیں۔
حکومت کی خاموشی
سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت اور وفاقی سطح پر بھی اس بحران پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ نہ تو کوئی پالیسی بیان سامنے آیا ہے اور نہ ہی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کیے گئے ہیں۔ عوام یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ جب آٹا جیسی بنیادی ضرورت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہو، تو حکومت کی اولین ترجیح کیا ہونی چاہیے؟
ممکنہ حل اور سفارشات
ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری طور پر درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:
- پنجاب سے گندم کی بلاتعطل سپلائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ خیبرپختونخوا اور دیگر متاثرہ علاقوں میں قیمتوں کو مستحکم کیا جا سکے۔
- ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا نہ ہو۔
- حکومتی سطح پر سبسڈی یا رعایتی قیمتوں پر آٹے کی فراہمی کا آغاز کیا جائے، خاص طور پر کم آمدنی والے طبقے کے لیے۔
- ضلعی انتظامیہ کو فعال کیا جائے تاکہ روزمرہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر کڑی نگرانی رکھی جا سکے۔
- عوامی نمائندوں اور مقامی حکومتوں کو شامل کر کے کمیونٹی بیسڈ مانیٹرنگ کا نظام قائم کیا جائے۔
پشاور میں آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان صرف ایک وقتی بحران نہیں بلکہ ایک مسلسل اور گہرا معاشی مسئلہ بن چکا ہے۔ جب تک حکومتی سطح پر سنجیدہ اور مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے، عوام کو ایسے ہی مسائل کا سامنا رہے گا۔












Comments 1