ناکامی یا نئی سیاسی کشمکش کا آغاز؟ آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال، فائرنگ اور رکاوٹوں سے 2 افراد جاں بحق
آزاد جموں و کشمیر میں "جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی” کی جانب سے دی گئی شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال بظاہر ناکام ثابت ہوئی۔ بڑے شہروں میں معمولاتِ زندگی تقریباً جاری رہے، مارکیٹیں جزوی طور پر کھلیں اور ٹرانسپورٹ بھی مکمل طور پر بند نہ ہو سکی۔ تاہم چند ناخوشگوار واقعات نے احتجاج کو تشویش ناک رخ دے دیا، جن میں مظفرآباد میں فائرنگ کے نتیجے میں مسلم کانفرنس کا ایک کارکن جاں بحق ہوا اور ایک بزرگ شہری ایمبولنس کی رکاوٹ کے باعث زندگی کی بازی ہار گیا۔
یہ صورتحال کئی سوالات کو جنم دیتی ہے: کیا عوامی ایکشن کمیٹی اپنی عوامی حمایت کھو رہی ہے؟ یا آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال محض وقتی طور پر کمزور ہوئی ہے اور مستقبل میں زیادہ شدت اختیار کر سکتی ہے؟
مطالبات کہاں سے شروع ہوئے؟
عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک کا آغاز 2022 میں ہوا تھا، جب خطے میں آٹے اور بجلی کے نرخوں میں کمی اور رعایتی نرخوں پر فراہمی کے مطالبے کے ساتھ احتجاج شروع ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تحریک میں نئے مطالبات شامل ہوتے گئے جن میں شامل ہیں:
حکومتی اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ
اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا خاتمہ
مفت تعلیم اور مفت صحت کی سہولیات
حکومتی اخراجات میں کمی اور کرپشن کے خلاف اقدامات
پاکستان میں مقیم مہاجرینِ کشمیر کے نام پر نشستوں کے خاتمے کا مطالبہ
یہ فہرست وقت کے ساتھ بڑھ کر 38 نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ میں ڈھل گئی۔
آزاد کشمیر ہڑتال مطالبات اور عوامی ایکشن کمیٹی کا 38 نکاتی چارٹر
حالیہ احتجاج کیوں ناکام ہوا؟
آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال کی ناکامی کے کئی اسباب بیان کیے جا رہے ہیں:
عوامی حمایت میں کمی
اگرچہ ابتدائی دنوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس تحریک کا ساتھ دیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تاثر جڑ پکڑنے لگا کہ تحریک زیادہ تر تاجروں کے مفادات کے گرد گھوم رہی ہے، خصوصاً بجلی کے کمرشل نرخوں پر زور دینے سے۔
حکومتی حکمتِ عملی
حکومت نے آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال سے قبل ہی وفاق سے اضافی سیکیورٹی فورسز منگوا لیں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائیں، اور اسپتالوں و تعلیمی اداروں کو فورسز کے لیے مختص کر کے سخت اقدامات کیے۔ اس نے احتجاج کی شدت کو کم کر دیا۔
پرامن احتجاج میں تشدد کا عنصر شامل ہونا
آزاد کشمیر میں فائرنگ، ایمبولنس روکنے اور تشدد کے واقعات نے عوامی تاثر کو منفی بنایا۔ بہت سے شہریوں نے اسے ایک "شرپسندانہ” تحریک کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔
مذاکراتی ناکامیاں
حکومت اور ایکشن کمیٹی کے درمیان کئی بار مذاکرات ہوئے لیکن حتمی نتائج نہ نکل سکے۔ حکومت کا موقف ہے کہ "90 فیصد مطالبات تسلیم کر لیے گئے”، جبکہ ایکشن کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ بنیادی نکات پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس تضاد نے عوام کو الجھا دیا۔
عوامی ردعمل
آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال کے دوران مختلف شہروں میں عوام نے کاروبار کھلے رکھ کر یہ پیغام دیا کہ وہ معمولاتِ زندگی کو مزید متاثر نہیں دیکھنا چاہتے۔
تاجروں میں تقسیم: ایک بڑا طبقہ احتجاج کے ساتھ تھا لیکن عام دکاندار اور چھوٹے کاروباری حضرات نے اسے نقصان دہ قرار دیا۔
شہریوں کا غصہ: مسلم کانفرنس کے مارچ پر فائرنگ اور ایمبولنس روکنے کے واقعات نے عوامی سطح پر شدید ردعمل پیدا کیا۔
ایکشن کمیٹی کا مؤقف
ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر کا کہنا ہے کہ "حکومت نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔ سستے آٹے کا معیار خراب کیا گیا، بجلی کے نرخ کم کرنے کے ساتھ لوڈشیڈنگ اور کم وولٹیج کے ذریعے عوام کو پریشان کیا جا رہا ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اشرافیہ کی مراعات اور اسمبلی نشستوں کے خاتمے جیسے بنیادی مطالبات پورے نہ کیے تو تحریک مزید شدت اختیار کرے گی۔

حکومت کا مؤقف
وزیر داخلہ وقار نور کے مطابق:
"حکومت ہر وقت مذاکرات کے لیے تیار ہے۔”
"زیادہ تر مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ باقی نکات پر قانون سازی کی ضرورت ہے جو ایک دن میں نہیں ہو سکتی۔”
"ایکشن کمیٹی اب عوامی تحریک کم اور تاجروں کی نمائندہ کمیٹی زیادہ بن گئی ہے۔”
مستقبل کا منظرنامہ
تجزیہ نگاروں کے مطابق آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال کے مستقبل کے چند ممکنہ رخ ہو سکتے ہیں:
مزید کمزوری اور ختم ہونا
اگر عوامی حمایت مزید کم ہوئی تو یہ تحریک رفتہ رفتہ ختم ہو سکتی ہے۔
نئی قیادت یا نئے مطالبات کے ساتھ ابھرنا
اگر تحریک اپنے دائرہ کار کو دوبارہ عوامی مسائل کی طرف موڑ لے (تعلیم، صحت، روزگار)، تو یہ ایک بڑی عوامی تحریک کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی مداخلت
مسلم کانفرنس پر حملے کے بعد خدشہ ہے کہ مقامی سیاسی جماعتیں اس تحریک کو اپنے حق یا مخالفت میں استعمال کریں۔ اس سے تحریک کا سیاسی رنگ مزید گہرا ہو گا۔
آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال اس بار ناکام ضرور ہوئی ہے، مگر یہ ناکامی تحریک کے اختتام کا اعلان نہیں ہے۔ اس کے مطالبات میں ایسے نکات شامل ہیں جو براہِ راست عوامی مسائل سے جڑے ہیں، اور جب تک ان مسائل کا مستقل حل نہیں نکلتا، کشمیری معاشرہ وقتاً فوقتاً اسی طرح کے احتجاجی دباؤ دیکھتا رہے گا۔
Comments 1