دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس — اسرائیل کی جارحیت، مسلم ممالک کا متفقہ مؤقف اور مستقبل کی حکمتِ عملی
دوحہ میں بلایا جانے والا ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس مشرقِ وسطیٰ کی حالیہ کشیدہ صورتحال کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بعد مسلم دنیا کے رہنماؤں نے پہلی مرتبہ کھل کر اس بات کا اعتراف کیا کہ اب صرف مذمتی بیانات کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف کئی سخت بیانات سامنے آئے جنہوں نے عالمی سیاست میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے میزبان اور امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ اسرائیل نے نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ انسانیت کے خلاف جرائم میں بھی ہر حد عبور کرلی ہے۔ ان کے مطابق، غزہ میں جاری نسل کشی اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام عالمی برادری کے ضمیر پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
شیخ تمیم نے واضح کیا کہ قطر نے ہمیشہ خطے میں امن قائم کرنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کیا، لیکن اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا اور حماس کی قیادت کو نشانہ بنا کر امن کی کوششوں پر کاری ضرب لگائی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم ممالک مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کریں، ورنہ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔‘‘
عرب لیگ کا مؤقف — عالمی برادری اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرائے
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط نےعرب اسلامی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پوری انسانیت کے خلاف ہیں۔ ان کے مطابق، عالمی برادری کی خاموشی نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ یہ دہرا معیار بھی ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ عالمی قوانین کے مطابق اسرائیل کو جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ ’’ہم سب پر لازم ہے کہ اس موقع پر متحد ہوکر آواز بلند کریں، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی،‘‘ احمد ابو الغیط نے کہا۔
عراق اور مصر کا سخت مؤقف
عراقی وزیرِاعظم محمد شیاع السودانی نے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں کہا کہ اسرائیلی جارحیت نے پورے خطے کو غیر مستحکم کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی مظالم اور بھوک نے غزہ کو انسانی المیے میں بدل دیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری کی خاموشی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب مزید دوہرا معیار برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ اسرائیل نے تمام ریڈ لائنز عبور کرلی ہیں اور دانستہ طور پر خطے کے امن کو سبوتاژ کررہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ فلسطین میں جاری نسل کشی فوری طور پر روکی جائے اور انسانی امداد پہنچانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس کا خطاب
فلسطینی صدر محمود عباس نے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں جذباتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جنگی جرائم اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ’’اب وقت آ گیا ہے کہ صرف بیانات سے آگے بڑھا جائے اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ 1967ء کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام ہی خطے میں پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔ ان کے مطابق، فلسطینی عوام کی نسل کشی روکنا اور فوری انسانی امداد پہنچانا عالمی برادری کی اولین ذمہ داری ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان کا دبنگ مؤقف
ترک صدر رجب طیب اردوان نے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی کو متحد ہو کر اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں لانا چاہیے تاکہ اسے اپنے جرائم کا حساب دینا پڑے۔
اردوان نے کہا کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا لیکن اگر مسلم ممالک متحد ہوجائیں تو اس کے تمام عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے ہمیں باہمی اتحاد اور تعاون بڑھانا ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف قطر دورہ: عرب اسلامی کانفرنس میں فلسطین مسئلہ زیر غور
مسلم دنیا کی اجتماعی سوچ — بیانات سے آگے بڑھنے کا وقت
اس عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ مسلم ممالک پہلی بار کھل کر اس بات پر متفق ہوئے کہ اسرائیل کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر جوابدہ ٹھہرانا ناگزیر ہے۔ ماضی میں اکثر اجلاسوں میں محض مذمتی قراردادوں پر اکتفا کیا جاتا رہا لیکن دوحہ اجلاس نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر مسلم ممالک عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرسکتا ہے۔

عالمی برادری کی خاموشی — دہرا معیار
دوحہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس (arab islamic summit doha)کے بیشتر مقررین نے عالمی برادری خصوصاً مغربی ممالک کے دوہرے معیار پر سخت تنقید کی۔ ایک طرف وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری طرف اسرائیل کی کھلی جارحیت پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ سات دہائیوں سے حل طلب ہے اور لاکھوں بے گناہ فلسطینی آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
نتیجہ — مسلم اتحاد کی ضرورت
دوحہ کا یہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم دنیا اب مزید خاموش نہیں رہ سکتی۔ اسرائیل کی جارحیت نے پوری امت مسلمہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اجلاس صرف ایک اور اعلامیہ تک محدود رہے گا یا واقعی مسلم ممالک عملی اقدامات اٹھا پائیں گے۔
اگر یہ اجلاس عملی اقدامات کی بنیاد بن گیا تو یہ نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
Emergency Arab-Islamic Summit in Doha on 15 September 2025, to discuss the recent Israeli aggression against the State of Qatar. The Emergency Summit will reaffirm the solidarity of Arab and Islamic countries with the State of Qatar. #Arab_Islamic_Summit https://t.co/KTULxS1bhQ
— OIC (@OIC_OCI) September 15, 2025










Comments 1