لمبی جدائی کی تان آج بھی زندہ بلبلِ صحرا ریشماں کو رخصت ہوئے 12 برس بیت گئے
اسلام آباد: پاکستان کی عظیم لوک گلوکارہ بلبلِ صحرا ریشماں کو دنیا سے رخصت ہوئے 12 برس بیت گئے، مگر ان کی گونج آج بھی ہر دل میں زندہ ہے۔
بلبلِ صحرا ریشماں کی آواز میں وہ درد، سوز اور سچائی تھی جس نے سرحدوں کو مٹا دیا۔ آج بھی ان کی "لمبی جدائی” سن کر دل بھر آتا ہے۔
فطرت کی عطا — بلبلِ صحرا ریشماں کی ابتدائی زندگی
بلبلِ صحرا ریشماں کا تعلق ایک سادہ مگر روحانی خاندان سے تھا۔
ان کے والد حاجی مشتاق مویشیوں کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے۔
ریشماں 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت صرف چند ماہ کی تھیں، جب ان کا خاندان راجستھان سے ہجرت کر کے کراچی آیا۔
بچپن سے ہی بلبلِ صحرا ریشماں کو لوک موسیقی کا شوق تھا۔
خواتین شاہ بیاہ کے موقع پر راجستھانی گیت گاتی تھیں، اور ریشماں نے کم عمری میں ہی ان دھنوں کے ساتھ اپنی آواز کا جادو بکھیرنا شروع کر دیا تھا۔
عقیدت اور روحانیت کا رنگ
بلبلِ صحرا ریشماں کو اولیائے کرام سے گہری عقیدت تھی۔
وہ کم عمری سے ہی حضرت لال شہباز قلندرؒ کے مزار پر حاضری دیتی رہیں۔
عرس کے موقع پر ان کی گائی ہوئی دھمالیں لوگوں پر وجد طاری کر دیتی تھیں۔
ان کی آواز میں ایک روحانی کیفیت تھی، جو انہیں دوسرے گلوکاروں سے منفرد بناتی ہے۔
ریڈیو پاکستان سے شہرت کا آغاز
ایک دن بلبلِ صحرا ریشماں کی قسمت نے کروٹ لی۔
وہ صرف 12 سال کی تھیں جب سیہون شریف میں دھمال گا رہی تھیں۔
ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی نے ان کی آواز سنی اور حیران رہ گئے۔
انہوں نے ریشماں کو کراچی بلایا اور انہیں ریڈیو پاکستان پر گانے کا موقع دیا۔
جب بلبلِ صحرا ریشماں کی آواز پہلی بار نشر ہوئی، تو سامعین ان کے سحر میں کھو گئے۔
ان کی آواز میں صحرا کی وسعت، درد، جدائی اور عقیدت کی خوشبو تھی۔
ان کا پہلا گانا “لعل میری پت رکھیوں بلا جھولے لالن” نے انہیں راتوں رات مشہور کر دیا۔
ٹی وی پر جلوہ، شہرت کا نیا سفر
1960ء کی دہائی میں جب بلبلِ صحرا ریشماں پاکستان ٹیلی ویژن پر پہلی بار جلوہ گر ہوئیں تو ان کی سادہ مگر روحانی شخصیت نے ناظرین کو مسحور کر دیا۔
ان کے گائے ہوئے گانے جیسے لمبی جدائی، نئیں لگدا دل میرا، سن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک، گڈی آ گئی ٹیشن تے آج بھی امر ہیں۔
بلبلِ صحرا ریشماں نے صرف لوک گیت نہیں گائے بلکہ وہ پاکستان کی ثقافتی پہچان بن گئیں۔
ان کی آواز نے ہر طبقے کے دلوں کو چھوا۔
سرحد پار مقبولیت
بلبلِ صحرا ریشماں کی شہرت پاکستان سے نکل کر بھارت اور دنیا بھر میں پھیل گئی۔
بھارتی ہدایتکار سبھاش گھئی نے ان کی آواز میں “لمبی جدائی” سنی اور اسے فلم ہیرو میں شامل کیا —
یہ گانا سپر ہٹ ہوا اور بلبلِ صحرا ریشماں کو عالمی سطح پر پہچان ملی۔
راج کپور نے بھی ان کے گیت "اکھیاں نوں رہن دے” کو اپنی فلم بوبی میں شامل کیا،
جسے لتا منگیشکر نے گایا، مگر اس کی اصل روح بلبلِ صحرا ریشماں کی آواز سے جڑی رہی۔
بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی ان کی مداحوں میں شامل تھیں۔
انہوں نے بلبلِ صحرا ریشماں سے ملاقات کی اور انہیں بھارت میں مستقل رہائش کی پیش کش کی،
مگر ریشماں نے فخر سے کہا:
“پاکستان نے مجھے پہچان دی ہے، میں اپنے وطن کو کبھی نہیں چھوڑوں گی۔”
سادگی، وقار اور عقیدت
بلبلِ صحرا ریشماں نے شہرت کے باوجود سادگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
وہ ہمیشہ عاجزی اور وقار کے ساتھ رہیں۔
ان کی گفتگو میں نرمی، انکساری اور اللہ کا شکر شامل ہوتا تھا۔
انہوں نے زندگی بھر اپنی روحانی وابستگی برقرار رکھی اور لوک موسیقی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔
بیماری اور آخری نغمہ
1980ء میں بلبلِ صحرا ریشماں کو کینسر ہوا۔
انہوں نے برطانیہ میں علاج کروایا لیکن صحت بحال نہ ہو سکی۔
ڈاکٹروں نے انہیں گانے سے منع کیا، مگر وہ اکثر کہتی تھیں کہ “میری سانسوں میں بھی سُر ہے۔”
ان کا آخری البم “پکھی واس” 2012ء میں ریلیز ہوا، جس کا گانا “ہتھ جوڑنیاں” بے حد مقبول ہوا۔
بلبلِ صحرا ریشماں نے اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، فارسی، ترکی اور عربی زبانوں میں گایا —
یہ ان کے فن کی وسعت اور دل کی گہرائی کا ثبوت ہے۔
شاہ رخ خان فلم کنگ کا شاندار ٹریلر ریلیز، سہانا خان کا بالی ووڈ ڈیبیو
ایک عہد کا اختتام
3 نومبر 2013ء کو بلبلِ صحرا ریشماں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔
ان کی آواز نے پاکستان کی ثقافت میں ایک سنہری باب رقم کیا۔
لوگ آج بھی ان کی آواز سن کر مسکراتے اور آنسو بہاتے ہیں۔
ان جیسی آواز صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتی ہے۔










Comments 2