اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی مارنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم
اسلام آباد سے اہم خبر سامنے آئی ہے جہاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی اور ساتھ ہی ان کتوں کو مارنے پر ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ فیصلہ وفاقی دارالحکومت میں آوارہ کتوں کے خاتمے اور ان کی نسل کشی کے خلاف دائر ایک درخواست کی سماعت کے دوران دیا گیا۔
عدالتی کارروائی کا پس منظر
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو نے کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی کیونکہ ان جانوروں کو مارنا غیر انسانی عمل ہے اور یہ ماحولیاتی توازن کے لیے نقصان دہ ہے۔
سی ڈی اے حکام سے وضاحت طلب
عدالت نے سی ڈی اے کے ڈائریکٹر میونسپل ایڈمنسٹریشن کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا اور پوچھا کہ آوارہ کتوں کو مارنے کے کیا شواہد ہیں۔
جسٹس خادم حسین سومرو نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی تاکہ ان جانوروں سے شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے، مگر انہیں مارنا کسی صورت قابل قبول نہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگر کسی نے آوارہ کتوں کو مارنے کا حکم دیا یا ان کی ہلاکت میں کردار ادا کیا تو ان کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا جائے۔
2020 کی پالیسی پر دوبارہ عملدرآمد کا حکم
اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کے حوالے سے سنہ 2020 میں بنائی گئی قومی پالیسی پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تمام بلدیاتی ادارے اس پر فوری طور پر عمل کریں۔
یہ پالیسی آوارہ کتوں کے انسانی طریقے سے کنٹرول کے لیے بنائی گئی تھی، جس میں ویکسینیشن، نیوٹرلائزیشن اور رہائشی علاقوں سے منتقلی کے اقدامات شامل ہیں۔
عدالت نے واضح کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی تاکہ ان کے کاٹنے کے واقعات کم ہوں اور ریبیز جیسی بیماریوں کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
عدالت کے ریمارکس — “انسانیت صرف انسانوں کے لیے نہیں”
سماعت کے دوران جسٹس خادم حسین سومرو نے ریمارکس دیے کہ “انسانیت صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ جانوروں کے لیے بھی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی تاکہ بلدیاتی ادارے ان کے قتل کے بجائے سائنسی اور اخلاقی طریقہ کار اختیار کریں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی تحفظ کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھیں۔
ماہرینِ حیوانات اور سماجی تنظیموں کا ردعمل
اسلام آباد میں سرگرم سماجی تنظیموں اور اینیمل ویلفیئر سوسائٹی کے نمائندوں نے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی جو کہ ایک تاریخی فیصلہ ہے کیونکہ اس سے جانوروں کے ساتھ ظلم کا سلسلہ رکنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق آوارہ کتوں کی ویکسینیشن سے نہ صرف ریبیز جیسے مہلک امراض پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ انسانی جانوں کا تحفظ بھی ممکن ہوگا۔
پالیسی پر عملدرآمد کیلئے سی ڈی اے کو ذمہ داری
عدالت نے سی ڈی اے کو ہدایت کی کہ وہ اسلام آباد کے تمام سیکٹرز میں اوارہ کتوں کی گنتی، ویکسینیشن اور حفاظتی انتظامات کے لیے جامع پلان تیار کرے۔
عدالت نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی اس لیے اب کسی بھی علاقے میں کتوں کو مارنے کا عمل برداشت نہیں کیا جائے گا۔
سی ڈی اے کے حکام نے یقین دہانی کرائی کہ وہ جانوروں کے تحفظ کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیں گے اور شہریوں کو بھی آگاہی فراہم کی جائے گی۔
شہریوں کے تاثرات — خوشی اور اطمینان
اسلام آباد کے رہائشیوں نے کہا کہ اگرچہ آوارہ کتوں سے تحفظ ضروری ہے، لیکن ان کے قتل کے بجائے ویکسینیشن ایک بہتر حل ہے۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی تو اس سے نہ صرف انسانی جانوں کا تحفظ ہوگا بلکہ شہر میں صفائی ستھرائی اور ماحول دوست اقدامات میں بہتری آئے گی۔
بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی
پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اس فیصلے کو سراہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی جس سے پاکستان کا امیج دنیا میں بہتر ہوگا کیونکہ یہ فیصلہ جدید اور اخلاقی اصولوں کے مطابق ہے۔
اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ عدالت کا سخت نوٹس
مجموعی طور پر، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اوارہ کتوں کی ویکسینیشن کی ہدایت کردی تو یہ فیصلہ انسانیت اور جانوروں دونوں کے لیے ریلیف کی خبر ہے۔
یہ اقدام نہ صرف شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنائے گا بلکہ اسلام آباد کو ایک جدید، مہذب اور ماحول دوست شہر بنانے کی جانب اہم قدم ہے۔