ڈالر کی قدر میں کمی سے روپے کی پوزیشن مضبوط
انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی
پاکستان میں زرمبادلہ کی مارکیٹ میں ایک بار پھر مثبت رجحان سامنے آیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ دونوں میں جاری ہے، جس کے نتیجے میں روپے کی پوزیشن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں کئی ایسے عوامل سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس صورتحال کو جنم دیا ہے۔
روپے اور ڈالر کا حالیہ رجحان
انٹربینک مارکیٹ میں بدھ کے روز کاروبار کے دوران ڈالر کی قیمت 281 روپے 60 پیسے پر بند ہوئی۔ دن کے دوران ایک موقع پر ڈالر کی قدر مزید 26 پیسے کم ہو کر 281 روپے 35 پیسے تک جا پہنچی تھی۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ ڈالر کی قدر میں کمی کا دباؤ مسلسل برقرار ہے۔
اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قیمت 282 روپے 80 پیسے رہی، جو کہ 10 پیسے کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے نے اپنی پوزیشن بہتر بنائی ہے۔
کمی کی بنیادی وجوہات
پاکستان کی معیشت میں حالیہ دنوں میں کئی ایسے اقدامات سامنے آئے ہیں جنہوں نے روپے کو سہارا دیا۔ ماہرین کے مطابق:
پاکستان اور چین کے درمیان 8.5 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری معاہدے
یہ معاہدے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں، جس سے مارکیٹ میں مثبت تاثر پیدا ہوا ہے۔
ترسیلات زر میں اضافہ
سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس آمدنی نے زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر ڈالا ہے اور نتیجتاً ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔
معاشی اشاریوں میں بہتری
حکومتی اقدامات کے باعث مہنگائی کی شرح میں جزوی کمی اور تجارتی خسارے پر قابو پانے کی کوششیں معیشت کو سہارا دے رہی ہیں۔
شرح سود اور افراط زر کا کردار
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ افراط زر کی شرح اب بھی بلند ہے لیکن قوی امکان ہے کہ آئندہ دو سہ ماہیوں میں شرح سود میں کمی نہ ہو۔ اس پیش گوئی کے باوجود مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کا رجحان روپے کی طرف رہا ہے۔
سرمایہ کاروں کا اعتماد
سرمایہ کار ڈالر کے مقابلے میں روپے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے تعلقات میں بہتری اور چین جیسے ممالک کے ساتھ بڑے سرمایہ کاری معاہدے ہیں۔
مارکیٹ پر عوامی ردعمل
عام شہریوں کے لیے یہ خبر اطمینان کا باعث ہے کہ ڈالر کی قدر میں کمی کے بعد مہنگائی کے دباؤ میں کمی آسکتی ہے۔ درآمد شدہ اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات اور ضروریات زندگی کی اشیاء میں۔
مستقبل کا منظرنامہ
ماہرین کے مطابق اگر ترسیلات زر کا تسلسل برقرار رہا اور حکومت نے اپنے معاشی اقدامات میں سختی جاری رکھی تو آنے والے دنوں میں بھی ڈالر کی قدر میں کمی (Dollar depreciation) دیکھی جا سکتی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ عالمی منڈیوں میں تیل اور دیگر اشیاء کی قیمتوں کا بھی اثر رہے گا۔
عوام اور کاروباری طبقے کے لیے فوائد
درآمدات سستی ہونے سے کاروباری افراد کو فائدہ ہوگا۔
مہنگائی کے دباؤ میں کمی آئے گی۔
روپے کی قدر میں بہتری سے معیشت پر اعتماد بڑھے گا۔
اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے رجحان میں اضافہ متوقع ہے۔
چیلنجز بدستور موجود
اگرچہ ڈالر کی قدر میں کمی خوش آئند ہے لیکن کچھ چیلنجز اب بھی برقرار ہیں، جیسے:
بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا دباؤ۔
عالمی معیشت میں عدم استحکام۔
افراط زر پر قابو پانے میں مشکلات۔
ماہرین کی رائے
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ کمی وقتی بھی ہو سکتی ہے اگر حکومت نے درست اقدامات جاری نہ رکھے۔ ان کے مطابق معاشی اصلاحات کا تسلسل برقرار رکھنا لازمی ہے تاکہ روپے کی قدر مزید مستحکم ہو۔
مجموعی طور پر صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ دونوں میں ڈالر کی قدر میں کمی سے روپے کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو نہ صرف عام عوام بلکہ کاروباری طبقہ بھی فائدہ اٹھائے گا۔ تاہم پائیدار بہتری کے لیے حکومت کو سخت اقدامات اور اصلاحات کی رفتار تیز کرنا ہوگی۔
زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں روپیہ کا راج، ڈالر کی قدر میں کمی










